توشہ خانہ کی کہانی ،ریکارڈ کی زبانی
ریاست مدینہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو عامل بنا کر خیبر روانہ کیا تاکہ وہ زکوٰۃ عشر اور صدقات جمع کرکے لائے- صحابی جب واپس آئے تو مال کی دو ڈھیریاں لگائیں اور کہا ایک بیت المال کے لیے ہے اور دوسرا خیبر کے لوگوں نے ان کو ہدیہ کے طور پر دیا ہے- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم اپنی ماں کے گھر بیٹھے تھے اس وقت تمہیں ہدیہ کیوں نہ دیا گیا اور سارا مال بیت المال میں جمع کرنے کا حکم دیا-ایک ویڈیو کے مطابق جنرل پرویز مشرف سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے دبئی میں مہنگا فلیٹ کیسے خریدا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ مشرق وسطی کے ایک ملک کے بادشاہ ان کے دوست ہیں انہوں نے فلیٹ خریدنے کے لیے ایک ارب روپے دیے ہیں-سوال یہ کہ اگر وہ پاک فوج کے آرمی چیف اور پاکستان کے سابق صدر نہ ہوتے تو ان کو ایک ارب روپے بطور گفٹ دیے جاتے؟
پاکستان کی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ بیرونی ملکوں سے ملنے والے تحائف کے بارے میں قانون سازی ہی نہیں کی گئی تاکہ حکمران اپنی مرضی سے معمولی رقم ادا کر کے مہنگے تحائف اپنے پاس رکھ سکیں۔برطانیہ کے قوانین کے مطابق صرف 120 پونڈ تک قیمت کے تحائف اپنے پاس رکھے جا سکتے ہیں- امریکہ کے قوانین کے مطابق 375 ڈالر تک قیمت کے تحائف لیے جا سکتے ہیں-امریکہ کی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن کو برما کے حکمران نے سیاہ ہیروں والا گلے کا ہار بطور گفٹ دیا جو ان کو پسند آگیا اور انہوں نے اسکی پوری قیمت 922 ڈالر دے کر خرید لیا-
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کلمہ گو نہیں ہیں انہوں نے 2018ء میں ایک ریلی سے خطاب کے دوران انکشاف کیا کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کو جو تحائف وصول ہوئے وہ سب انہوں نے نیلام کرا دیے اور جو رقم وصول ہوئی وہ خواتین کے سکولوں کی تعمیر کے لیے دے دی-بھارت کے قوانین کے مطابق کوئی اہل کار 5000 روپے سے زیادہ قیمت کا گفٹ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا -اخبارات کے ریکارڈ کے مطابق 1999ء سے 2009ء تک پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم نے توشہ خانہ سے صرف 20 فیصد رقم ادا کرکے 100 ملین روپے کے گفٹ وصول کر لیے- جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے 2000 گفٹ اپنے پاس رکھ لیے- دونوں پاکستان سے باہر عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں-پاکستان کے سابق صدر آصف زرداری نے ریکارڈ کے مطابق اپنے پانچ سالہ دور اقتدار کے پہلے سال میں بیرونی ملکوں سے ملنے والے 60 ملین روپے کے تحائف 9 ملین روپے ادا کر کے اپنے پاس رکھ لیے-ان تحائف میں لیبیا کے کرنل معمر قذافی کی جانب سے دی گئی بی ایم ڈبلیو کار بھی شامل تھی-وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی بیگم کو ترکی کے صدر اردگان کی بیگم نے سیلاب زدگان کے متاثرین کی امداد کے لیے اپنے گلے کا قیمتی ہار دیا جو انہوں نے اپنے پاس رکھ لیا-جب میڈیا میں اس ہار کے بارے میں واویلا ہوا تو یوسف رضا گیلانی نے ہار واپس توشہ خانہ میں جمع کرا دیا-ریکارڈ کے مطابق جنرل ضیاء الحق ،غلام اسحاق خان، محمد رفیق تارڑ، محمد خان جونیجو، میاں محمد نواز شریف، بے نظیر بھٹو، بلخ شیر مزاری ،ظفر اللہ خان جمالی اور چوہدری شجاعت حسین سب نے قیمتی گفٹ اپنے پاس رکھ لیے-نیک نام معتبر سابق بیوروکریٹ کے مطابق عرب ممالک کے بادشاہ اور شہزادے جب رحیم یار خان شکار کے لیے آتے تو تحائف کے کنٹینر بھر کر لاتے جن کا کوئی ریکارڈ بھی نہ رکھا جاتا اور وہ تحائف حکمرانوں کے گھروں میں پہنچا دیے جاتے- سابق وزیراعظم عمران خان کو تاریخ میں کرپشن کے خلاف جہاد کرنے والے لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے گا- ان کے خلاف ابھی تک کوئی میگا سکینڈل سامنے نہیں آیا البتہ وہ بھی توشہ خانہ کے سلسلے میں اخلاقی معیار پر قائم نہ رہ سکے-عمران خان اور خاتون اول نے توشہ خانہ سے 100 تحائف خریدے جن کی قیمت 150 ملین روپے تھی-ان تحائف کی 50 فیصد قیمت ادا کی گئی- افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک عرب بادشاہ کی جانب سے گفٹ کے طور پر دی گئی قیمتی گھڑی دوبئی کے ایک دکاندار کو فروخت کر دی گئی-گھڑی اتنی نایاب اور قیمتی تھی کہ دوبئی کے دکاندار نے سعودی عرب کے متعلقہ اہل کار کو فون کرکے تصدیق کی کہ گھڑی چوری کی تو نہیں ہے-عمران خان نے ان تحائف کو قانونی قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے گھڑی بیچ کر بنی گالہ کی سڑک تعمیر کرائی- سی ڈی اے کے اہل کار نے تصدیق کی کہ عمران خان کی جانب سے سڑک کی تعمیر کے لیے سی ڈی اے کو 30 لاکھ روپے دیے گئے- اللہ ہی جانتا ہے کہ عمران خان گفٹ میں ملنے والی قیمتی گھڑی فروخت کرنے پر کیوں مجبور ہوئے-لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محترم اللہ نواز اپنی کتاب ’’ ہاؤ کین پاکستان سروائیو ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ پاکستان میں جتنے قوانین بنائے گئے ان میں کرپشن میں ملوث افراد کے لیے بچ نکلنے کے چور دروازے رکھے گئے-توشہ خانہ کے تحائف کے لیے کوئی قانون سازی ہی نہیں کی گئی-تحائف کی مارکیٹ قیمت کا تخمینہ لگانے کا اختیار کیبنٹ سیکرٹری کے پاس ہے جو وزیراعظم کے رحم و کرم پر ہوتا ہے-اس کی کوشش یہی ہوگی کہ وزیراعظم کو خوش کرنے کے لیے تحائف کی قیمت کا تخمینہ کم لگایا جائے- پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی چاہیے کہ سرکاری اہل کار اور منصب دار 25 ہزار روپے سے زیادہ قیمت کا غیر ملکی تحفہ توشہ خانہ سے نہیں لے سکتا - جو قیمتی تحائف توشہ خانہ میں موجود ہیں ان کی نیلامی کرکے رقم تھر اور دوسرے پس ماندہ علاقوں میں پانی کی فراہمی کے منصوبے پر خرچ کر دی جائے- جسٹس میاں گل حسن نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران درست فرمایا کہ پاکستان کے منصب داروں کو ملنے والے بیرونی تحائف ریاست اور عوام کے لیے ہوتے ہیں اور جب پاکستان کی جانب سے غیر ملکی سربراہوں کو تحائف دیے جاتے ہیں تو وہ عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے خریدے جاتے ہیں-پاکستان کے عوام جب تک بیدار اور باشعور نہیں ہوں گے وہ لٹتے رہیں گے اور پاکستان لاوارث رہے گا-