بدھ ، 16 شوال 1443ھ‘ 18 مئی 2022ء
ملک میں پانی بچانے کیلئے حکومتی مہم کا آغاز
یہ اگرچہ ایک خوش آئند اقدام ہے مگر جب تک اس کی حقیقی روح پر عمل نہیں ہوگا یہ بھی سابقہ اقدامات کی طرح طاق نسیاں پر دھرا رہ جائے گا جس بیدردی سے ہمارے گھروں‘ محلوں اور شہروں میں پینے کا پانی استعمال ہوتا ہے وہ بذات خود ایک المیہ ہے۔ دن رات گھر کے کپڑے‘ برتن‘ فرش‘ گیراج‘ گاڑیاں ‘ سڑک اور تھڑے دھونے کیلئے پینے کا پانی ضائع کیا جاتا ہے۔ کار واش کے اڈے بے دریغ پانی ضائع کرتے ہیں لان میں بھی پانی پینے والا ضائع ہوتا ہے یہ سب عیاشی کے بعد بھلا ہم کس منہ سے پانی بچائو مہم چلاتے ہیں۔ اگر واقعی پانی بچانا ہے خشک سالی والے علاقوں میں زندگی اور سبزے کوبرقرار رکھنا ہے تو پھر ہمیں سختی سے پانی کے بے جا استعمال کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ اس کا ایک حل تو یہی ہے کہ ہر گھر پر میٹر لگایا جائے تاکہ پانی کے استعمال کی ریڈنگ ہو اور جو مقررہ حساب سے زیادہ پانی استعمال کرے اس سے اضافی پانی کا بھاری بل وصول کیا جائے۔دوسرا یہ کہ بڑے گھروں پر پانی کا معقول فکس بل وصول کیا جائے۔ جو لوگ بڑے گھروں میں رہتے ہیں وہ بل بھی دے سکتے ہیں۔ہر گھر میں پینے کے پانی کو ضائع کرنے کے حوالے سے روک لگائی جائے۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ملک بھر میں چھوٹے بڑے ذخیرہ آب کی تعمیر ہنگامی بنیادوں پر کی جائے ‘ ڈیم بنائے جائیں‘ متاثرہ علاقوں میں تالاب‘ ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کیا جائے خواہ وہ زیر زمین ٹینک ہی کیوں نہ ہوں پانی کو ضائع ہونے سے ہر صورت بچایا جائے۔ بارش اور گرمی میں گلیشیئر پگھلنے والے پانی کی سٹوریج کا بھرپور انتظام بھی آبی قلت میں کارآمد ہوسکتا ہے۔کاش اگر ہم صرف کالا باغ ڈیم ہی بنا چکے ہوتے تو آج ہمیں یہ برے دن نہ دیکھنے پڑتے۔
٭٭٭٭
جس کے گھر بجلی نہیں اس نے 5 ارب روپے کی 55 سو کنال اراضی خرید لی عطا تارڑ
بھئی یہ الف لیلیٰ ہو یا رام لیلا ہماری سیاست میں عرصہ دراز سے چل رہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بانیان پاکستان کے انتقال کے ساتھ ہی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے علاوہ ودیگر طبقوں کے اثاثوں میں جس تیزی سے اضافہ ہوا وہ ہماری شرح ترقی سے کئی سو گنا زیادہ تیز تھا۔ شہری ہوں یا دیہی تمام عناصر نے اس بہتی گنگا میں دل کھول کر اشنان کیا۔ اب مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ نے سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کیخلاف اینٹی کرپشن میں کیس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق انہوں نے 10 ارب روپے سے زیادہ کے ناجائز اثاثے بنائے ہیں جن میں تونسہ شریف کے علاقے میں 55 سو کنال اراضی بھی شامل ہے اور ملتان میں 70 کروڑ مالیت کا 14 ایکڑ کا بنگلہ اور ایک ٹیکسٹائل مل میں 12 کروڑ کی سرمایہ کاری کا انہوں نے الزام لگایا ہے۔ یہ فیصلہ تو عدالت میں ہوگا کہ یہ سب ایک معصوم فرشتہ صورت بزدار کی محنت ومشقت کا صلہ تھا یا کہ کسی کی مہربانی۔ بات کسی اور کی ہوتی تو شاید لوگ حیران نہ ہوتے مگر بات ایک ایسے شخص کی ہے جسے بطور وزیراعلیٰ پنجاب برقرار رکھنے کیلئے سابقہ وزیراعظم آخری حد تک گئے۔ انہی کے لئے کسی کے آگے نہ جھکنے والا عمران خان نہایت عاجزی سے چودھری پرویز الٰہی کے دردولت پر سرجھکانے پر مجبور ہوگیا اور بزدار کو ہٹانے پر رضامند ہوگئے مگر وہ نوبت نہ آئی اور خان صاحب کی حکومت چلی گئی۔ اب بزدار خود کال چکر میں پھنسے نظر آرہے ہیں۔ 10 ارب روپے کی ان کی کرپشن کا سن کر تو لوگ دم بخود ہیں یہ کام مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرف سے ہوتا تو شاید اتنی حیرانگی نہ ہوتی مگر یہ تو خود کو نیٹ اینڈ کلین کہنے والا کپتان کا بہترین کھلاڑی تھا۔
٭٭٭٭
عمران خان کی سکیورٹی کیلئے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات
جب خود خان صاحب آئے روز اپنے جلسوں میں سازشی خط کا معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد اپنے قتل کی سنسنی خیز کہانی کا بیانیہ سنائیں گے اور عوام کے جذبات کو بھڑکائیں گے کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو اس کا حساب لینا۔ کن سے لینا اس کا بھی انہوں نے عندیہ دے دیا ہے کہ ان لوگوں کے نام جو میرے قتل کی سازش میں شریک ہیں ان کے نام ایک ویڈیو میں ریکارڈ کرا کے محفوظ جگہ رکھ دیا ہے کہاں رکھے معلوم نہیں ۔ اب اس نئے بیانیے کے بعد حکومت سے اضافی سکیورٹی طلب کی گئی جس کے بعد وزیراعظم نے ان کی سخت سکیورٹی کا حکم دیا۔ اب خان صاحب ایک بار پھر پروٹوکول کے مزے لیتے نظر آئیں گے۔ اب ان کی حفاظت کیلئے 94پولیس اور رینجرز کے اہلکار تعینات کئے گئے صرف یہی نہیں بنی گالہ اور زمان پارک لاہور میں ان کی رہائش گاہوں کے باہر بھی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ زندگی موت خدا کے ہاتھ ہے مگر حفاظتی انتظامات دیکھ کر لگتا ہے اب خان جی شاہی پروٹوکول کی وجہ سے خود کو محفوظ تصور کرتے ہوں گے حالانکہ درجنوں نجی سکیورٹی اہلکار بھی ان کو گھیرے ہوتے ہیں۔ اب وہ جب سفر کریں گے تو ان کی گاڑی کے ساتھ 5 پولیس کی گاڑیاں اور درجنوں اہلکار ہوں گے۔ یوں انہوں نے اپنی جان کے تحفظ کا بھرپور انتظام کرالیا۔ قربان جائیے ہمارے بھولے بھالے عوام پر جو ایسے محفوظ زندگی بسر کرنے والوں کے جلسے جلوس میں اپنی جان سے بے پروا ہوکر شرکت کرتے ہیں اور کئی تو ان تاریک راہوں میں مارے بھی جاتے ہیں۔
٭٭٭٭
پنجاب میں قبرستانوں کی حفاظت کیلئے کمیٹیاں قائم
لینڈ مافیا نے زرعی اراضی کو برباد کرکے رہائشی سوسائٹیوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے جس کے بعد اب صرف قبضہ گروپوں کی نظریں ابدی نیند سوئے گورستان کے مکینوں کو دستیاب اراضی پر ہیں۔ یوں تو عرصہ دراز سے پنجاب کیا ملک بھر میں قبرستان کی ارضی آہستہ آہستہ قبضہ گروپ ہتھیاتے آرہے ہیں۔ بڑے بڑے قبرستان تیزی سے سکڑ رہے ہیں ان میں نئے ُمردوں کی تدفین کی گنجائش بھی نہیں ہے اوپر سے قبضہ گروپ خاموشی سے ہاتھ مار کر تھوڑا تھوڑا کرکے قبرستانوں کی اراضی پر گھر اور دکانیں بنا دیتے ہیں جو پہلے کچے ہوتے ہیں بعدازاں پختہ ہوجاتے ہیں۔ اب مردے بے چارے تو اٹھ کر عدالتوں میں آنے سے رہے۔ حکومتی ادارے بھی کھاپی کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ اب اس صورتحال کے پیش نظر حکومت پنجاب نے یہ ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب بھر میں قبرستانوں کے تحفظ کیلئے ان کی اراضی کو قبضہ گروپوں سے بچانے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دی جارہی ہیں جو ان قبرستانوں کی حفاظت کریں گی اور یہاں سونے والوں کو مکمل سکون کی نیند لینے دیں گی جو ان کا حق ہے۔ اس کے ساتھ قبرستانوں کو خوبصورت بنانے‘ جرائم پیشہ اور نشہ کرنے والوں سے محفوظ بنانے کی ضرورت بھی ہے۔ دکھ البتہ اس بات کا ہے قانون قبضہ گروپوں سے قبضہ شدہ زمین واگزار کیوںنہیں کرتا اگر کراچی میں غیر قانونی گھریاتجاوزات بلڈوز ہوسکتے ہیں تو قبرستانوں کی اراضی پر بنے کیوں نہیں ہوسکتے۔ اس کے ساتھ حکومت تمام رہائشی سوسائٹیوں اور ہائوسنگ سکیموں کو قانونی طور پر سختی سے پابندی کرے کہ وہ اپنی سکیموںمیں قبرستانوں کیلئے مناسب جگہ ہر صورت رکھے ورنہ سکیم منظور نہ کی جائے جوسکیمیں بن چکی ہیں ان پر بھی یہ قانون بزور طاقت نافذ کرایا جائے۔