حکومتی اتحادیوں کی جانب سے فوری فیصلوں کی ضرورت
وزیراعظم شہبازشریف نے اتحادی جماعتوں کے سربراہوں سے قومی معاملات پر مشاورت شروع کر دی ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز وزیراعظم نے پی ٹی ڈیم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان‘ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے چیئرمین آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی سے وزیراعظم ہائوس میں ملاقاتیں کیں اور ان سے امور حکومت اور ملک کی اقتصادی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کو یقین دلایا کہ تمام فیصلے اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر کئے جائیں گے۔ خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نئے انتخابات کیلئے تیار ہے تاہم انتخابات نئی مردم شماری اور نئی ووٹر لسٹوں کی بنیاد پر کرائے جائیں۔ انکے بقول سیاست بچانے کیلئے پٹرولیم کی قیمتیں نہیں روکی جانی چاہئیں۔ بعدازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ موجودہ مسائل کا حل عام انتخابات ہیں اس لئے فریش مینڈیٹ لیا جائے۔ اس میں دیر کی تو بدنصیبی ہوگی۔
وزیراعظم شہبازشریف اور آصف علی زرداری کے مابین ون ٹو ون ملاقات ہوئی جس میں وزیراعظم نے انہیں لندن میں نوازشریف سے ملاقات پر اعتماد میں لیا۔ آصف زرداری کے بقول انہوں نے وزیراعظم کو تجویز دی ہے کہ وزیر خزانہ ملک کی معاشی صورتحال پر اتحادیوں کو بریفنگ دیں۔ انہوں نے جاگیرداروں‘ صنعت کاروں اور ملک کے امیر طبقات سے براہ راست ٹیکس وصول کرنے کا عندیہ بھی دیا۔
دریں اثناء وزیراعظم شہبازشریف نے گزشتہ روز اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں بھی حکومتی معاملات بالخصوص پارلیمنٹ تحلیل کرکے فوری انتخابات کرانے اور نگران سیٹ اپ تشکیل دینے کے بارے میں مشاورت کی جبکہ اجلاس میں موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس سلسلہ میں فوری انتخابات کا انعقاد یا معیشت کے حوالے سے سخت فیصلوں کے دو ممکنہ آپشنز پر اتحادی جماعتوں کی رائے لی گئی۔ بعض ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے بصورت دیگر مشکل معاشی فیصلوں پر عوام کی طرف سے سامنے آنیوالے ردعمل کا بھی اتحادیوں کو مشترکہ طور پر ہی سامنا کرنا پڑیگا۔ ذرائع کے مطابق اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ایک اور بحران کا سامنا ہوگا کیونکہ اس وقت پنجاب اور مرکز میں اپوزیشن موجود ہی نہیں تو نگران سیٹ اپ کیسے تشکیل دیا جائیگا۔
ہمارے لئے اس سے زیادہ تشویشناک صورتحال اور کیا ہو گی کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد گزشتہ ایک ماہ سے حکومتی سیٹ اپ کو دل جمعی کے ساتھ جملہ فرائض ادا کرنے کا موقع مل پایا ہے نہ عوام کو انکے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کے فوری حل کے معاملہ میں امید کی کوئی کرن نظر آئی ہے۔ اسکے برعکس آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی اگلی قسط کی ادائیگی کے معاملہ میں اسکی شرائط پر عملدرآمد کے تقاضوں میں شدت پیدا ہو چکی ہے جس میں پٹرولیم اور بجلی کی مد میں حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی ختم کرنے کا تقاضا بھی شامل ہے جس کیلئے آج وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی قیادت میں حکومتی اقتصادی ٹیم کا آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا بھی آغاز ہو رہا ہے اور یہ طے شدہ امر ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عملدرآمد سے عوام پر نئے ٹیکسوں کی بھی بھر مار ہو گی اور مہنگائی کے اٹھنے والے نئے سونامی بھی عوام کو زندہ درگور کرنے کیلئے متحرک نظر آئیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام کے جو مسائل ا نہیں پی ٹی آئی کی حکومت سے بدگمان کرنے اور وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا باعث بنے تھے‘ وہ حکومت کی تبدیلی کے بعد نہ صرف بدستور موجود ہیں بلکہ ان مسائل میں اضافے کا رجحان بھی جاری ہے۔ اس وقت ڈالر جستیں بھرتا ہوا 195 روپے کی شرح تک آگیا ہے اور سونے کی قیمت بھی بلند ترین سطح تک جا پہنچی ہے جبکہ ملک پر چھائی غیریقینی کی صورتحال کے باعث سٹاک مارکیٹ 819 پوائنٹس گر گئی ہے۔ اگر خراب ہوتی اس اقتصادی صورتحال پر فوری قابو نہ پایا گیا اور معیشت کے استحکام کیلئے کوئی عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ملک دیوالیہ ہونے کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے جبکہ حالیہ بحران پر قابو پانے کیلئے حکومت کی جانب سے غیرمقبول اور سخت فیصلوں کی ضرورت ہے جن کے تحت پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوگا تو بے انتہاء مہنگائی مفلوک الحال عوام کا عملاً کچومر نکال دیگی۔
یہی وہ نازک صورتحال ہے جس کا اس وقت مخلوط قومی حکومت کو سامنا ہے جبکہ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے روزانہ کی بنیاد پر اپنے پبلک جلسوں کے ذریعے حکومت کو زچ کرنے اور حکومت مخالف جذبات ابھارنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو حکومت کیلئے الگ سے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ اس تناظر میں تو اقتدار حکومتی اتحادیوں کیلئے کانٹوں کی سیج بنا نظر آرہا ہے جس میں حکومتی اتحادی بھی امور حکومت کی انجام دہی کے معاملہ میں یکسو نظر آتے۔
یقیناً یہ صورتحال تادیر تو برقرار نہیں رہ سکتی۔ پی ٹی آئی حکومت کیخلاف تحریک چلاتے اور وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لاتے وقت اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور پیپلزپارٹی کی قیادتوں کو خوش فہمی تھی کہ وہ پی ٹی آئی کو اقتدار سے نکلوانے کے بعد خود اقتدار میں آکر ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام لے آئیں گی اور پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے گھمبیر بنائے گئے عوام کے روٹی روز گار کے مسائل میں بھی بہتر اقتصادی پالیسیوں کے تحت انہیں فوری ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہونگی مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد ان قائدین کو امور حکومت کے معاملہ میں مشکلات ہی مشکلات نظر آرہی ہیں اور وہ گومگو کا شکار ہیں کہ عوام کو مطمئن کرنے کیلئے وہ آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرنے سے معذرت کرلیں یا یہ شرائط قبول کرکے عوام کو مہنگائی کے عفریت کے آگے ڈال دیں جبکہ اس صورتحال میں ان کیلئے اگلے انتخابات میں عوام کے پاس جانا بھی مشکل ہو جائیگا۔
اسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتی اور سیاسی قیادتوں نے لندن جا کر سابق وزیراعظم میاں نوازشریف سے طویل مشاورت کی جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرکے فوری انتخابات کرانے کے اشارے ہی مل رہے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت اسمبلی کی باقیماندہ مدت پوری کرنے کے حق میں ہے اور اسکی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو یہ یقین بھی دلا دیا گیا ہے کہ وہ درپیش مسائل میں بھی عوام کی طرف سے پڑنے والا بوجھ مساوی طور پر اٹھائیں گے۔ اسکے برعکس حکومتی گورننس کے معاملات فوری اقدامات کے متقاضی ہیں۔ حکومتی اتحادیوں نے اس سلسلہ میں جو بھی فیصلہ کرنا اور قدم اٹھانا ہے‘ انہیں یہ سارے معاملات بلاتاخیر طے کرلینے چاہئیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک کو اقتصادی اور سیاسی استحکام کی جانب لے جانے کی بجائے مزید بدحالی کی جانب دھکیل دیا جائے۔