القدس پھر منتظر ہے ایک صلاح الدین ایوبی کا
کرونا سے پوری دنیا پریشان ہے۔ بھارت پر تو کرونا قہر اور قیامت بن کر ٹوٹ رہا ہے۔ برطانیہ میں بھارتی ویرینٹ مچ چکا ہے۔ برطانیہ نے کرونا کی لپیٹ میں شدت سے آئے ہوئے ممالک کی ریڈ لسٹ جاری کی تو اس میں پہلے مرحلے میں بھارت کو شامل نہیں کیا گیا جب شامل کیا گیا تو پانی سر سے گزر چکا تھا۔ آج بھارتی ورژن کرونا برطانیہ میں تباہی پھیلا رہا ہے۔ میرٹ سے ہٹ کر سیاسی بنیادوں پر فیصلوں کے ایسے ہی بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ پاکستان بھارتی ویرینٹ کرونا سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ عید پر ذرا سخت لاک ڈائون لگایا گیا تھا جس میں اب ریلیکسیشن دی گئی ہے۔ تاہم خطرات بدستور موجود ہیں۔ کرونا کے دوران عید صرف رسمی طور پر ہی منائی جاتی ہے۔ اس کو مزید بے مزا رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر تنقید نے کر دیا۔ جب رویت ہلال کمیٹی کے پاس مصدقہ اور مستند شہادتیں آ گئیں تو ان کو کیسے رد کیا جا سکتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن بڑے عالم و فاضل ہیں ان کی طرف سے ایک قضا روزہ رکھنے کا پیغام دیا گیا۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ ایک وزیر کی طرف سے بھی رویت ہلال کمیٹی کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی۔ عید بہرحال عید ہوتی ہے کسی نہ کسی طور پر منا لی جاتی ہے مگر اس عید کے موقع پر مسلمانوں کے دلوں کو اسرائیلی فورسز کے فلسطینیوں پر مظالم نے چیر کر رکھ دیا ہے۔ اس پر میڈیا میں بہت کچھ لکھا اور نشر کیا جا چکا ہے اور بدستور سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فورسز کی کارروائیاں بدستور جاری ہیں آج مزید 42فلسطینی شہید کر دیئے گئے ان میں بچے اور خواتین بھی ہیں۔ اب تک مرنے والوں کی تعداد تین سو اور زخمیوں کی ہزاروں میں ہو گئی ہے۔ امریکہ اسرائیل کی پشت پر ہے۔ اسی طرح مسلم ممالک بھی باور کرا رہے ہیں کہ فلسطین کے ساتھ ہیں- اس حوالے سے او آئی سی کا سعودی عرب میں اجلاس ہوا جس میں اسرائیل کو ’’وارننگ‘‘ دی گئی کہ وہ وحشیانہ حملے بند کرے۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس میں فلسطینیوں کے حق میں اور صہیونی مظالم کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ ادھر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس نے کہا ہے لڑائی بند اور ثالثی ہونی چاہیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیلی اقدام کو جنگی جرائم کا ارتکاب قرار دیا ہے۔ سب سے زیادہ شرمناک بیان گوئترس کا ہے جو اسرائیل کے یکطرفہ حملوں کو لڑائی کہہ رہے ہیں۔ او آئی سی کی قرارداد اور عالمی شخصیات کے بیانات کیا بم گراتے اسرائیلی جہازوں اور گولے برساتے ٹینکوں کے سامنے رکھ دیئے جائیں تو فلسطینی شہید اور زخمی ہونے سے بچ جائیں گے۔ ہر طرف سے منافقت ہو رہی ہے۔ اپنے بھی کر رہے ہیں غیر بھی کر رہے ہیں۔ اسرائیل ایک معمولی سا ملک ہے جسے اپنی بقا کی فکر ہے ۔ جسے عرب ممالک اپنے مفادات کے لیے یقینی بنا رہے ہیں۔ آج اسرائیلی اقدامات کے خلاف مذمتی قرارداد لانے والے کل اسے تسلیم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔
قارئین!ہر پانچ چھ سال بعد ایک منظم سازش کے تحت قبلہ اول کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے۔کروڑوں مسلمانوں کے دل اور جذبات کو پائوں تلے روندنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور ہر بار فلسطینیوں کے انفراسٹکچر کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔ اور یہ نقصان اربوں کھربوں کا ہوتا ہے۔ قارئین کچھ سال پہلے اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیرس سے میری متعدد ملاقاتیں ہوئیں (یاد رہے ان ملاقات اور مذاکرات کا شیڈول محترمہ بے نظیر بھٹو ایما پر ہوا تھا)اور ایسی ہی ایک ملاقات کے دوران میں نے اسرائیلی وزیراعظم سے پوچھا کہ آخر آپ فلسطینیوں کو ایک چھوٹی سی ریاست بنا کر عالمی امن کو سرپرائز دے سکتے ہیں۔میری یہ بات سن کر اسرائیلی وزیراعظم مسکرائے اور کہنے لگے کہ ہم تو فلسطین کو ایک آزاد اور خودمختار جمہوری ملک دیکھنا چاہتے ہیں مگر ہمارے عرب دوست جو مشرق وسطیٰ کے اطراف میں ریاستوں پر قابض ہیںاور ہر ریاست میں انارکی کی بنیاد پر بادشاہت یا سلطنت قائم ہے۔ ایک جمہوری اور آزاد فلسطین ان عربوں دوستوں کو اس لیے قابل قبول نہیں کہ فلسطین کی دیکھا دیکھی کہی ان کی ریاستیں بھی آزادی کی ڈیمانڈ شروع نہ کر دیں۔
قارئین! موجودہ دور میں حکومت پاکستان ،افواج پاکستان اور سلطنت ترکی قبلہ اول کی آزادی کے لیے سرگرم ہیں اور ترکی کے سربراہ طیب اردگان کی قبلہ اول کی آزادی کے لیے تڑپ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان شاء اللہ بہت جلد فلسطین ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر وجود میں آ جائے گا۔پس ،القدس پھر منتظر ہے ایک صلاح الدین ایوبی کا۔