مسیحا دی اڈیک
تخلیقی اور ادبی کاموں میں سے ترجمہ ایک واقعی مشکل اور دقت طلب کام ہے۔ اس کے لیے ترجمہ کرنے والے کی محض دو زبانوں سے واقفیت کافی نہیں بلکہ اس کا ان دونوں زبانوں سے جڑے تہذیبی و ثقافتی حوالوں کو جاننا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ترجمے کی روایت ماضی میں کسی حد تک مضبوط رہی ہے۔ بہت سے لوگوں نے کسی نہ کسی تحریک کے نتیجے میں اچھے اور معیاری متون کو انگریزی سے مقامی زبانوں کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا۔ ہماری مقامی زبانوں میں پنجابی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پنجاب کے باسیوں نے اپنی زبان پر وہ توجہ نہیں دی جس کی وہ حق دار تھی۔ اس عدم توجہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انگریزی یا دوسری غیر ملکی زبانوں سے براہ راست پنجابی میں ترجمے کی روایت بہت کمزور ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پنجاب کے علمی و ادبی حلقوں میں اس بات کا احساس پیدا ہورہا ہے کہ پنجابی کی ترویج و اشاعت محض بولنے سے ہی نہیں ہوگی بلکہ اس کے لیے ادبی سرمایہ بھی مہیا کرنا ہوگا۔
پنجابی میں ادبی سرمایہ مہیا کرنے کے لیے جو اہم کاوشیں ہورہی ہیں انہی میں سے ایک کاوش محترمہ ثروت سہیل نے بھی کی ہے۔ وہ گوجرانوالہ کے ایک سرکاری کالج میں انگریزی زبان و ادب کی استاد اور پرنسپل ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں سیموئل بیکٹ کے مشہورِ زمانہ کھیل Waiting for Godot کو ’مسیحا دی اڈیک‘ کے عنوان سے انگریزی سے براہ راست پنجابی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس ترجمے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مترجم نے کھیل کے کرداروں کے ناموں کو بھی مقامی پیرائے میں ڈھال کر پیش کیا ہے تاکہ قارئین مانوس ناموں کی وجہ سے خود کو کہانی سے زیادہ جڑا ہوا محسوس کریں۔ ثروت سہیل کی یہ کاوش اس لیے بھی لائق تحسین ہے کہ جہاں پنجابی سے تعلق رکھنے والے اس زبان کو اپنے گھروں، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں رابطے کا ذریعہ بنانے میں بھی تذبذب کا شکار ہیں وہاں انگریزی ادبیات کی ایک استاد کا ایک ادبی شاہکار کو پنجابی کے قالب میں ڈھالنا واقعی بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اس ترجمے کو پڑھ کر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ فاضل مترجم واقعی انگریزی اور پنجابی کے تہذیبی و ثقافتی حوالوں سے بھی اچھی طرح واقف ہیں اور ان حوالوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک زبان کے متن کو خوبصورتی اور مہارت سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کا فن بھی جانتی ہیں۔۔۔ کتاب ملنے کا پتہ مجید بک ڈپو، سنی سنٹر، سیٹیلائٹ ٹاؤن، گوجرانوالہ، اور فون نمبر 0323-4508605 ہے۔ (تبصرہ: عاطف خالد بٹ)