بابا وقار انبالوی!
تقسیم ہند سے قدرے پہلے اور بعد میں چند اردو اخبار ایسے تھے جنہیں مسلمان شوق سے پڑھتے تھے۔ ’نوائے وقت‘ اس اعتبار سے منفرد اور مؤقر اخبار تھا کہ یہ ایک نظریاتی پرچہ تھا۔ اسلام کا پرچارک اور پاکستان کا شیدائی! قائد اعظم نے بالخصوص دو اخباروں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ ’نوائے وقت‘ اور انگریزی زبان میں شائع ہونے والا ’ڈان‘ اخبار۔ حمید نظامی ’نوائے وقت‘ کے بانی تھے۔ شورش کشمیری نے درست کہا تھا ، صحافت کی دنیا میں نظامی صاحب قائد کا دایاں بازو تھے اور الطاف حسین بایاں۔ حمید نظامی کی رحلت کے بعد ان کے بھائی مجید نظامی صاحب نے اس چراغ کی لو بجھنے نہ دی۔ انکے مشن کو آگے بڑھایا۔ بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ مجید مرحوم صحافت کے میرِ کارواں تھے۔
جب ملک میں آمریت کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ زباں بندی تھی۔ چارسو حبس اور لو کا راج تھا ، اس وقت بھی مجید نظامی نے کلمۂ حق ادا کیا۔ میاں نواز شریف کو بھی صرف وہی کہہ سکتے تھے، ’’میاں صاحب ایٹمی ھماکہ کریں وگرنہ آپ کا دھماکہ ہو جائے گا!‘‘
’نوائے وقت‘ سے بڑی قدآور شخصیتیں وابستہ رہی ہیں۔ ان میں سے ایک وقارانبالوی بھی تھے۔ ایک طویل عرصہ تک انہوں نے ’نوائے وقت‘ میں لکھا۔ ’سرراہے‘ اور قطعہ بہت انہماک اور قطعیت کے ساتھ لکھتے تھے ۔ ایسی diction ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ وہ زبان و بیان کی خوبیوں سے واقفیت کے علاوہ اردو زبان ، صرف و نحو ، فقروں کی نشست و برخاست پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ عمروں میں تفاوت کے باوصف وہ میرے دوست تھے۔ بلوچستان پر لکھی جانے والی کتاب ’اجنبی اپنے دیس میں‘ کا مسودہ جس انہماک سے انہوں نے پڑھا اور واضح غلطیوں کی نشاندہی کی اس نے مجھے ان کا گرویدہ بنا دیا۔ ان کی وفات پر میں نے ایک تاثراتی مضمون لکھا جو ’یادِ رفتگان‘ کے سلسلے میں پیش کیا جا رہا ہے:
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
میں اس وقت لندن کے ’ہالی ڈے ان‘ ہوٹل کی کافی شاپ میں بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا کہ اردو اخبار میں خبر پڑھی ’’اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی۔۔۔ مشہور صحافی، ادیب، شاعر، کالم نگار، وقار انبالوی رحلت فرما گئے‘‘۔ شدت غم سے میرا سارا وجود لرز گیا اور ہاتھ میں پکڑی چائے کی پیالی گرتے گرتے بچی۔ کچھ دیر بعد ہی ایسے محسوس ہوا جیسے بابا جی میرے سامنے کھڑے ہیں اور نیم خندہ لبی کے ساتھ فرما رہے ہیں، ’’چائے کی یہ نیم گرم بغیر چینی کے بدمزہ پیالی ختم کر ڈالو۔ کیا تمہارے چائے نہ پینے سے میں لوٹ آئوں گا؟ کیا میرے جانے سے دنیا کے ہنگامے دم توڑ دینگے؟ نظامِ کائنات میں خلل پڑ جائے گا؟ تم تو گواہ ہو کہ اس دن کا انتظار میں نے برسوں کیا۔ ایک بھرپور اور طویل سفر کے بعد میں تھک سا گیا تھا۔ دوست احباب بھی غالباً اکتا گئے تھے۔ ہر روز ایک زہرخند مسکراہٹ کے ساتھ پوچھتے، ’’بابا کب جا رہے ہو؟ کیا سینچری مکمل کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘ جواں مرگی کی قدر صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو زندگی کے خارزار پر پاپیادہ ایک طویل عرصہ تک آبلہ پا ہوئے ہوں۔
بابا جی سے میری دوستی بہت پرانی تھی اور پہلی ملاقات بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔ میں ان دنوں اسسٹنٹ کمشنر فیروز والا تھا اور گورنر پنجاب جنرل سوار خان کی ہدایت پر ماحولیاتی آلودگی دور کرنے کے لیے شیخوپورہ روڈ پر اپنی نگرانی میں کام کرا رہا تھا۔ ہم نے ملحقہ دیہات سے ہزاروں لوگوںکو اپنی مدد آپ کے تحت اکٹھا کیا اور انہیں پھول دار پودے لگانے، نالیاں صاف کرنے اور گڑھے بھرنے پر لگا دیا۔ کام بہت زور شور سے جاری تھا۔ لوگ ڈھول کی تال پر بیلچے اور کدالیں پکڑے کام میں جٹے ہوئے تھے۔ ہر طرف گرد و غبار کے بادل چھائے ہوئے تھے کہ ایک شخص میری طرف تیزی سے بڑھا اور بغیر کسی تعارف یا تمہید کے بولا، ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟ ‘‘
’’آپ کو کیا نظر آتا ہے؟‘‘ میں نے سوال کا رخ اسی کی طرف موڑ دیا۔
’’تم کون ہو؟ اور کیا ہو؟‘‘ اس کا لہجہ بڑا کھردرا تھا۔
’’یہ سوال آپ سے بھی پوچھا جا سکتا ہے؟‘‘
’’میں وقار انبالوی ہوں!‘‘
’’انبالے میں وقار کب سے آیا ہے؟‘‘ میں نے مصنوعی حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔ (جاری)