’’اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر‘‘
ہم کسی اور کو کیا دوش دیں۔ اسرائیلی فوجوں نے رمضان کریم کے مقدس مہینے کے جمعۃ الوداع کے روز سے‘ جب مسلم دنیا یوم القدس منا رہی تھی‘ مسجدالاقصیٰ میں نمازیوں پر بے دریغ فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا اور مسلمانوں کے قبلۂ اول کے صحن میں آگ لگا کر پوری مسجد کو نذر آتش کرنے کی مذموم کوشش کی‘ اس وقت سے اب تک دو ہفتے کے دوران کون سی قیامت ہے جو مسجد اقصیٰ اور غزہ کے دوسرے علاقوں میں نہتے‘ بے گناہ‘ بے یارومددگار فلسطینیوں اور انکے شیرخوار و معصوم بچوں پر اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی جانب سے نہ توڑی گئی ہو۔ سوشل میڈیا پر اسرائیلی فوجوں کے ان ننگ انسانیت مظالم کی ویڈیو کلپس دیکھ کر عملاً اوسان خطاء ہو جاتے ہیں۔ مسجد کے صحن اور گلیوں بازاروں میں ہر جانب انسانی خون کی ندیاں بہتی نظر آتی ہیں اور اسرائیلی بمباری سے فلسطینیوں کے ادھڑے‘ جلے اور ٹکڑوں میں بٹے بکھرے ہوئے جسم انسانیت کو بھی شرماتے نظر آتے ہیں۔ ظالم اسرائیلی فوجی معصوم بچوں کی گردنوں اپنا پورا وزن ڈال کر انہیں بے رحمی کے ساتھ شہید کر رہے ہیں۔ معصوم بچیوں کو پابند سلاسل کرکے گھسیٹا جا رہا ہے‘ غزہ میں بمباری کرکے میڈیا ہائوسز کی بلند و بالا عمارات کو ریت کی دیواروں کی طرح زمین بوس کیا جارہا ہے‘ سینکڑوں فلسطینی گھرانے اپنے ہی گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں‘ گلیوں‘ بازاروں میں بھوکے پیاسے پڑے تڑپ رہے ہیں اور میڈیا پر آنیوالی رپورٹس کے مطابق اب تک دو سو سے زائد فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں مگر مسلم دنیا میں کہیں‘ کسی کونے پر کوئی حقیقی تشویش اور غم و غصہ کی لہر نظر آئی؟ کہیں اسرائیل کو اسکے بہیمانہ مظالم پر مسکت جواب دینے اور سبق سکھانے کا مسلم دنیا میں کسی کو خیال آیا؟ پہلے دو دن تو ویسے ہی مکمل خاموشی چھائی رہی اور مسلم قیادتیں بے حمیتی والی بے حسی کی چادر تانے فلسطینیوں پر ٹوٹنے والی قیامت پر بے نیاز رہیں۔ عرب لیگ نے بس ایک رسمی مذمتی قرارداد منظور کی اور پھر ’’نُکرے‘‘ لگ کر بیٹھ گئی۔ اٹھاون مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بھی محض مذمت اور تشویش کے اظہار کی رسم نبھائی۔ پھر اس تنظیم کے رکن ممالک کے وزراء خارجہ کی کمیٹی نے بھی صہیونی مظالم کیخلاف قرارداد منظور کی اور عالمی قیادتوں پر فلسطینیوں کیخلاف وحشیانہ حملے بند کرانے پر زور دیا حالانکہ او آئی سی کا کوئی ایک بھی رکن ملک ایمانی جذبے کے ساتھ اسرائیل کو جواب دینے کیلئے عملی قدم اٹھائے تو پورے اسرائیل کا ’’تورابورا‘‘ بنا دے مگر…ع
حمیت نام تھا جس کا‘ گئی تیمور کے گھر سے
ہماری اس بے عملی کے ماحول میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل بھی بھلا فلسطینیوں کی کمک کو کیونکر آئیگی۔ سو سلامتی کونسل کے کہنے کو دو ہنگامی اجلاس ہوئے‘ پہلے اجلاس میں اسرائیلی کارروائیوں پر محض تشویش کا اظہار کیا گیا اور دوسرے اجلاس میں جو پہلے مؤخر ہوا اور پھر اس کا انعقاد ممکن ہوا تو امریکہ نے اسکے مشترکہ اعلامیہ کا اجراء ہی رکوا دیا۔ سو اس عالمی ادارے نے اپنے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس کے جاری کردہ اس بیان پر ہی اکتفا کیا کہ اسرائیل حالات خراب نہ کرے اور امن قائم کرنے کے اقدامات اٹھائے۔
ارے! ہم کس منہ سے اقوام عالم کو بے حسی اور بے عملی کے طعنے دے سکتے ہیں۔ مسلم دنیا تو خود مصلحتوں اور مفادات کی اسیر بن چکی ہے ورنہ مئی 1948ء میں معدودے چند یہودیوں کو پورے فلسطین پر ناجائز قابض ہونے اور غالب آنے کی بھلا کیونکر جرأت ہوسکتی تھی۔ یہی یہودی جو حضرت نبی ٔآخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت کے بعد انکی جانب سے حلقۂ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت پر خدا اور اسکے رسولؐ کے باغی ہوئے اور سرکشی اختیار کی جس پروہ خدا اور اسکے رسولؐ کے نافرمان ٹھہرے اور خالق کائنات نے اپنی آیت نازل فرما کر ان پر عذاب خداوندی نازل ہونے کا حضرت نبی آخری الزمانؐ کے ذریعے پیغام دیا۔ اس وقت مدینہ میں یہودیوں کے تین قبیلے بنونادر‘ بنو قریضہ اور بنو قینوقہ آباد تھے جنہیں حضرت نبی ٔ کریمؐ نے دعوت اسلام دی۔ اس سے منکر ہوتے ہوئے انہوں نے خدائے بزرگ و برتر کی بھی نافرمانی کی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نعوذباللہ قتل کی سازشوں میں مصروف ہو گئے چنانچہ انکے ساتھ لشکرِ محمدیؐ کے کئی معرکے برپا ہوئے‘ ان میں سے دو قبائل جلاوطنی پر مجبور ہوئے اور تیسرے قبیلے قینوقہ کے ایک سنار کے ہاتھوں ایک باپردہ مسلم خاتون کی بے حرمتی پر مسلم لشکروں کے ہاتھوں اس قبیلے کے ایک ایک فرد کے چیتھڑے اڑ گئے اور عرب سرزمین پر یہودیوں کا نام و نشان مٹ گیا۔ بے شک یہ سب کچھ بحکم خداوندی ہوا کیونکہ الیہود خدا کے حضور مقہور و معتوب ٹھہرے تھے۔
اگر آج یہی یہودی مسلم دنیا کی پوری طاقت بالخصوص عرب دنیا کے بے پناہ وسائل کے باوجود پورے فلسطین پر غالب ہوتے نظر آرہے ہیں اور قبلۂ اول کے نعوذباللہ انہدام کی سازشوں میں مصروف ہیں جن کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینیوں کا حشرنشر ہو رہا ہے تو کیا مسلم دنیا کو بحیثیت مجموعی اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکنا چاہیے؟ اسکے برعکس آج بالخصوص مسلم دنیا میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی فضا ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جناب! ہم کسی اور کو کیا دوش دیں‘ ان دنوں حکمران تحریک انصاف کی ایک خاتون رکن قومی اسمبلی عاصمہ حدید کی قومی اسمبلی کے فورم پر کی گئی تقریر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے جسے دیکھ اور سن کر عملاً رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں کے بائیکاٹ کے دوران کی گئی اس گستاخانہ تقریر پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو بھی انہیں شٹ اپ کال دینے کی توفیق نہ ہوئی جو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ یہ دشنام طرازی کررہی تھیں کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہودیوں کے ساتھ معاہدے کئے اور انہیں خوش کرنے کیلئے بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز کا آغاز کیا۔ انکی جانب سے چھوڑی گئی اس سے بڑی درفنطنی اور ہذیان اور کیا ہو سکتا ہے کہ جب خداوند کریم نے اپنے نبیؐ کو قبلۂ اول کے بجائے خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم صادر فرمایا تو درحقیقت انہوں نے یہ طے کرکے یہودیوں اور مسلمانوں کے مابین جھکڑا ختم کردیا تھا کہ مسجد اقصیٰ یہودیوں کا کعبہ ہے اور عرب کا خانہ کعبہ مسلمانوں کیلئے مخصوص ہے۔ اس خاتون رکن اسمبلی نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اپنی نماز کے دوران بھی تو آل ابراہیم سمیت ساری آل پر درود بھیجتے ہیں اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو بنی اسرائیل سے تھے۔ حیف صد حیف کہ اتنی بہتان تراشی پر بھی اسمبلی کے پورے ہائوس میں احتجاج اور مذمت کی ایک آواز تک بلند نہ ہوئی۔ اس خاتون نے خود قرآن اور اسلام کا مطالعہ نہیں کیا تو کوئی اسے سمجھا اور بتا دے کہ حضرت نبی ٔآخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اس لئے ان کا بنی اسرائیل سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ اور حضرت موسیٰ کی اولاد یہودیوں پر ہماری نمازوں میں کہاں درود بھیجا جاتا ہے۔ بے شک خدا کے تمام انبیائے کرام کی تعظیم ہمارے ایمان کا حصہ ہے مگر یہودیوں نے تو حضرت عیسیٰ کو بھی نبی ٔ برحق تسلیم نہیں کیا تھا اور حضرت نبی ٔ آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے ہو گئے تھے۔ جس ناخلف قوم یہود کی نافرمانی کے باعث خود خداوند کریم نے اس کیخلاف جنگ کا حکم دیا‘ ہماری رکن قومی اسمبلی انکے اور مسلمانوں کے مابین بیت المقدس پر لڑائی ختم کرنے کی تلقین کر رہی ہیں۔ تف ہے ایسی ذہنیت والوں پر۔ اقبال نے اسی لئے تو کہا تھا کہ…ع
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
خدا ہم پر رحم فرمائے۔