کیا ہم ابنارمل ہیں
لوگوں کی انفرادی عادات قومی عادات کا مجموعہ ہوتی ہیں کیونکہ افراد ہی قوم ہوتی ہے ایک مقولہ ہے کہ جیسی روحیں ویسے فرشتے اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جیسے لوگ ویسی قوم یا جیسی قوم ویسے لیڈر لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے مختلف اوقات میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے جو مختلف قوموں کو سیدھا راستہ دکھانے کے لیے تشریف لائے قوموں کی تربیت کے لیے آئے دنیا میں کوئی ایک ملک یا قوم ایسی نہیں جو ازخود بام عروج کو پہنچ گئی ہو جو کسی لیڈر کے بغیر ترقی کر گئی ہو۔ ہمیشہ قوموں کو راہ دکھانے والے لیڈر ہی ہوتے ہیں۔ عوام تو شتر بے مہار ہوتے ہیں وہ بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح ہوتے ہیں انھیں راستہ دیکھانے والے لیڈر ہی ہوتے ہیں ہمارے ہمسایہ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ دنیا کے دھتکارے ہوئے لوگ تھے نشیوں کی قوم تھی سست اور کاہل تھے پھر ان کو راہ دکھانے والی ایک قیادت ملی جس نے قوم کی تربیت کی۔ اپنے آپ کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا قربانیاں دیں کئی دہائیوں تک پوری قوم سال بھر ایک ہی طرح کا لباس پہنتی رہی۔ ان کی آبادی زیادہ اور وسائل کم تھے چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ایک بچے سے زیادہ بچے پیدا نہ کیے جائیں سب نے اس پر اتفاق کیا۔ ذرا سوچیں اولاد کی خواہش کسے نہیں ہوتی چینی قوم کی اپنی قیادت کے حکم پر یہ قربانی دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ اسی طرح ایک بیماری نے سر اٹھایا تحقیق کروائی گئی۔ پتہ چلا کہ گرم پانی پینے سے یہ بیماری پیدا نہیں ہوتی۔ ان کی قیادت نے کہا کہ تمام لوگ گرم پانی پئیں۔پوری قوم گرم پانی پینے لگی کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ ہمیں اچھا نہیں لگتا بلکہ گرم پانی ان کے کلچر کا حصہ بن گیا آج بھی چین میں قیادت کا حکم قانون کا درجہ رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ چینی قیادت نے پچھلے چالیس پچاس سالوں میں 70 کروڑ لوگوں کو خط غربت سے نکال کر امیر کر دیا ہے آج چین پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے اس کے برعکس اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو لگتا ہے ہم انسان ہی نہیں کئی بار میں سوچتا ہوں کیا ہم ابنارمل ہیں ہمارا کوئی بھی کام عام انسانوں والا نہیں ہم ہر معاملے میں انتہا تک جاپہنچتے ہیں نہ اعتدال ہے نہ برداشت ہے نہ سوچ ہے۔ ہر طرف پھڑ لو پھڑ لو والا ماحول ہے جس کسی کو رتی برابر اختیار ملتا ہے‘ وہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتا اس کو مس یوز کرتا ہے اور ہر دوسرا بندہ اسے بے اختیار کر کے وہ اختیار خود حاصل کرنا چاہتا ہے اور پھر وہی حرکتیں خود کرتا ہے جو وہ کر رہا تھا پوری قوم میں ٹانگیں کھینچنے کا رواج عام ہے۔ ہم دوسروں کو راستہ دینے کی بجائے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دور نہ جائیں آپ اپنے ارد گرد ماحول پر نظر ڈالیں ہماری سڑکوں پر ذرا سی دیر کے لیے ٹریفک سگنل بند ہو جائے تو ایسی ہڑبونگ مچ جاتی ہے کہ رہے رب دا نام ہر کوئی دوسرے کا راستہ روک کر خود نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ کوئی بھی نہیں نکل سکتا چند لمحے انتظار کرنے اور دوسروں کو راستہ دینے کی بجائے خود کو پھنسا لیتے ہیں اور پھر گھنٹوں اس ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں جب تک پولیس والے آکر مداخلت نہیں کرتے اور کسی کو روک کر کسی دوسرے کو راستہ نہیں دیتے ہم پھنسے رہتے ہیں کیا ہم میں یہ سینس نہیں کہ راستہ دینے سے راستے کھلے رہتے ہیں اور راستہ روکنے سے سب کے راستے رک جاتے ہیں ہم دوسرے کو راستہ دینے کی بجائے اس کا راستہ روک کر کہتے ہیں اب گزر کر دکھائو یہ عام آدمی کی ہی نفسیات نہیں ہماری قیادتوں کا بھی یہی حال ہے۔ کاش ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن نے اپنی اناوں کا مسئلہ نہ بنایا ہوتا ۔ایک دوسرے کو راستہ دیتے اعتدال کا راستہ اختیار کیا ہوتا تو یہ ملک دو ٹکڑے نہ ہوتا۔ کاش بھٹو عوامی مزاج دیکھ کر بھریا میلہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتے تو آج ہمیں ان سیاسی خرافات کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس نے آج ملک وقوم کا بیڑہ غرق کر رکھا ہے۔ کاش بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ایک دوسرے کو برداشت کرتے تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ کاش سیاست میں برداشت کا عنصر غالب ہوتا۔ کاش میاں نواز شریف عدالت سے نا اہل ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کو اپنی جماعت کے کسی اہل فرد کے سپرد کر دیتے کسی پر اعتماد نہیں تھا تو کم ازکم بھائی پر ہی اعتمادکرتے اور خود خاموشی اختیار کر لیتے۔ اس وقت میاں صاحب اپنی ضد بیانیے کے لیے پوری پارٹی کو داو پر لگا رہے ہیں حالانکہ مسلم لیگ ن اس ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس کی اس حیثیت میں ملک وقوم کا سرمایہ لگا ہوا ہے لیکن میاں نواز شریف سمجھتے ہیں کہ یہ قومی نہیں ان کی جماعت ہے اور اگر وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں مسلم لیگ ن کی ساری سیاست میاں نواز شریف کی ذات کے گرد گھوم رہی ہے اور پوری جماعت میاں نواز شریف کو خوش کرنے کے لیے وہ کچھ کر رہی ہے جس کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف جن حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ محض میاں نواز شریف کو خوش کرنے کیلئے ہے۔ اوپر سے مریم نواز صاحبہ کا شیخوپورہ میں جا کر یہ کہنا کہ پورا پاکستان غدار ہے۔ اس قسم کی باتیں قومی خدمت نہیں ذاتی انا ہے جس کا بہر حال نقصان مسلم لیگ کو بھی ہو گا اور ملک کو بھی ہو گا ہماری قیادتوں کے رویے قوم کو انتہا پسندی کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ حکومتی جماعت سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے ملک وقوم کو تقسیم کی طرف لے جانے کی بجائے یکجہتی کی طرف لے کر جائیں اور کچھ نہیں تو کم ازکم پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو کشمیر اور فلسطین پر تو ایک نظر آنا چاہیے اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں سنجیدہ ہیں تو انھیں مل بیٹھ کر 10 سال کے لیے ایک قومی ایجنڈا تشکیل دینا چاہیے اور اس ایجنڈے پر عمل کروانا سب کی ذمہ داری ہو باقی معاملات پر اپنی اپنی سیاست کرتے رہیں۔