"جینا "بچوں کیلئے اور بچے آپ کا مستقبل
میرے ایک کرم فرما ہیں ڈاکٹر آفتاب صدیقی۔ میں اللہ کے نیک بندوں کی تلاش میں رہتا ہوں ۔اللہ کا شکر ہے ،اللہ کے بندوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ایدھی سے لیکر شوکت خانم کے عمران خان تک ،اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب سے لیکر کسٹمز ہیلتھ کیئر کے ڈاکٹر آصف محمود جاہ تک۔الخدمت کے عبدالشکور سے لیکر سہارا کے ابرار الحق تک،ایک سے ایک بڑھ کر انسانیت کی خدمت میں مصروف ہے ،اور اب ڈاکٹر آفتاب صدیقی بھی چھپے رستم نکلے،کئی برس پہلے انہیں پی سی آئی اے کے اجلاس میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا ،جہاں انہوں نے علاج کے ایک نئے طریقے کے بارے میں آگاہی دی ۔یہ طریقہ ہے نیوٹرو سوٹیکل، آسان لفظوں میں آپ اسے علاج بالغذا بھی کہہ سکتے ہیں۔کمال کے انسان ہیں ،کراچی یونیورصٹی سے فارمیسی کی ڈگری لی اور آغا خان یونیورسٹی سے نیوٹریشن کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی ۔انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ انسان بیمار پڑجائے تو اسکے علاج کے تین چار طریقے ایک مغربی دوائیں جسے فارما سوٹیکل کہتے ہیں،ایک دیسی دوائیں جنہیں آپ طب یونانی بھی کہہ سکتے، آیوروویدک بھی کہہ سکتے ہیں اور ہربل بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہو میو پیتھک بھی علاج کا ایک آزمودہ طریقہ ہے۔آیوروویدک اور طب یونانی میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے لیکن مغربی طریقہ علاج میں جسے ہم فارما سوٹیکل کہتے ہیں وہ ان سے بالکل مختلف ہے ۔اگر ایک موازنہ کیا جائے تو برصغیر میں ،ہمدرد ،اجمل خان اور قرشی کی فروخت مغربی ادویہ کی فروخت سے دوگنی تگنی ہے ۔اب ان سے ملتا جلتا ایک طریقہ علاج نیوٹرو سوٹیکل سامنے آیا ہے جو دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے ۔آسٹریلیا نے تو مغربی میڈیسن پر پابندی عاید کر رکھی ہے اور ہر مرض کا علاج نیوٹرو سوٹیکل دوائوں سے کیا جارہا ہے ۔دیسی دوائوں اور مغربی دوائوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان میں جڑی بوٹیاں اور دیگر غذائوں سے براہ راست ادویہ تیار کی جاتی ہیں جبکہ مغربی طریقہ علاج میںان چیزوں کو سنتھیٹک شکل میں استعمال کیا جاتا ہے،ان دیسی اور مغربی طریقہ علاج میںایک بنیادی فرق اور بھی ہے۔ مغربی طریق علاج میںیہ امر طے شدہ ہے کہ کون سی دوائی کس مقدار میں لینی ہے اور کتنے عرصے کیلئے لینی ہے۔کیونکہ اس کا تعلق براہ راست بیماری کی تشخیص پر مبنی ہوتا ہے جبکہ دیسی طریقہ علاج میں بیماری کی تشخیص نہیں کی جاتی کہ بخار ہے تو کس وجہ سے ہے ،کہیں جسم میں درد ہے تو اسکی وجہ کیا ہے ،کہیں پھوڑا بن گیا ہے تو اسکے پیچھے جسم کی کونسی خرابی پنہاںہے ۔حکیم یا ہومیوپیتھ اندازے سے دوائی دیتا ہے اور وہ دوائی خود مرض کو تلاش کرکے اس کا علاج کرتی ہے اس لیے یہ علاج تھوڑا ساطویل ہوتا ہے۔ان دونوں طریقہ علاج میںتیسرا فرق یہ ہے کہ دیسی دوائوں کے کوئی منفی اثرات نہیں ہوتے جبکہ مغربی دوائوں کے غلط یا زیادہ استعمال سے بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ کئی نئی بیماریوں کا سبب بن جاتے ہیں۔ایک بیماری کا علاج کرتے کرتے کئی بیماریوں سے لرنا پڑتا ہے ۔ مغری طریقہ علاج میںڈاکٹر صرف مرض کی تشخیص کتا ہے لیکن اسے دوائی لکھنے کا اختیار ھاصل نہیں ہوتا۔ دوائی سجیسٹ کرنا فاماسسٹ کا فریضہ ہے لیکن دنیا بھر کے ڈاکٹر کسی فارما سسٹ کی مدد کے بغیر ہی دوائیاں دیتے ہیںجس سے کئی نئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
نیوٹرو سوٹیکل کیا ہے؟ یہ علاج بالغذا کی ایک شکل ہے ،اس میں جسمانی کمزوری کیلئے جو دوا دی جاتی ہے اس میں شہد ، زیتون کا تیل ،ہلدی ،کلونجی کا تیل شامل کیے جاتے ہیں۔مغربی طریقہ علاج میں جتنے بھی وٹامنز تجویز کیے جاتے ہیں۔ان سے کسی کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ کس مقدار میں یہ دوائی کھائی جائے تو جسم میں کسی خاص وٹامنز کی کمی پر قابو پایا جاسکتا ہے جبکہ نیوٹرو سوٹیکل میں ایک طے شدہ صورت کی بجائے غذائی صورت میں وٹامنز دیے جاتے ہیں جسے معالج کو پہلے سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ کس دوائی سے کتنی کیلریز بنیں گیں اور کتنے عرصے میں بنیں گی ۔ڈاکٹر آفتاب صدیقی کہتے ہیں کہ وہ دو ہزار دو سے نیوٹرو سوٹیکل ادویہ کے کاروبار میں مصروف ہیں اور ایک برطانوی کمپنی گولڈ شیف کی دوائیں در آمد کرکے ڈسٹری بیوٹر کا فریہ سرانجام دیتے رہے ہیں۔مگر جب برطانوی بائونڈ کی قیمت بڑھنے لگی اور گولڈ شیف کی دوائیاں لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوگئیں تو خیال آیا کہ کیوں نہ انہیں لائسنس کی مدد سے سستے داموں پاکستان میں ہی تیار کیا جائے ۔خوش قسمتی سے دوہزار بارہ میں وفاقی محکمہ صحت نے مغربی طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ طب یونانی،ہومیوپیتھک اور نیوٹرو سوٹیکل ادویاء بنانے کی بھی اجازت دے دی۔جب یہ راستہ کھل گیا تو انہوں نے برطانوی کمپنی سے معاہدہ کیا کہ انکی ٹیکنیکل مدد کے ساتھ انکی ساری دوائیں پاکستان میں تیار کی جائیں گی،اسکے ساتھ ہی انہوں نے لاہور کے خوبصورت انڈسٹریل اسٹیٹ سندر میں قدم رکھا اور فیکٹری کی تعمیر شروع ہوئی۔دو ہزار سترہ میں فیکٹری کی تعمیر مکمل ہوگئی ۔اور ہم نے محکمہ صحت سے کہہ دیاکہ وہ فیکٹری کا معائینہ کرلیں،فیکٹری ہر لحاظ سے معیاری تھی اس لیے ہمیں اجازت نامہ آسانی سے مل گیا۔ اب وہ پچھلے چار سال سے مقامی طور پر یہ دوائیں تیار کر رہے ہیں۔انکی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ ہم پاکستان کے باہر بھی چار ملکوں میں اسکی برآمد کر رہے ہیں،دوائوں کی مقبولیت کا راز یہ ہے کہ انکے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے اور ایک بیماری کئی بیماریوں کا باعث نہیں بنتی ۔ میںنے ڈاکٹر آفتاب صدیقی سے پوچھا کہ کینسر یا بائی پاس کے مریض کا علاج وہ کیسے کرتے ہیں انہوں نے جواب دیا کہ وکئی بھی حکیم یا ہومیوپیتھ یا فارما سوٹیکل معالج ان بیماریوں کی روک تھام کیلئے پیشگی دوائیاں دیتا ہے ۔اسے آپ احتیاطی طریقہ علاج بھی کہہ سکتے ہیں ۔ہمارے دیسی معالجین کوشش کرتے ہیں کہ مریضوں میںاگر کوئی علامات ظاہر بھی ہوں تو وہ بطور احتیاط انہیں ایسی دوائیاں دیتے ہیں کہ وہ بیماری کوئی پیچیدہ شکل خٹٰٓڑنہیں خڑتی اور بائی پاس کی نوبت نہیں آتی۔ڈاکٹر آفتاب صدیقی نے کہا کہ دیسی طریقہ علاج میں ہر طرح کی بیماریوں کا علاج موجود ہے ۔ حتی کہ جراحی کا عمل بھی صدیوں سے جاری ہے ۔ (جاری)