منگل ‘ 6؍ شوال 1442ھ‘ 18؍مئی 2021ء
فوج دوسری پارٹیوں سے رابطہ کرتی ہے تو اس میں کوئی ہرج نہیں: شیخ رشید
خدا جانے یہ کیا چمتکار ہو گیا کہ وزیرداخلہ اچانک اتنے وسیع القلب ہو گئے۔ کہاں ان کی وہ حق گوئی و بے باکی کہ اپنے علاوہ وہ کسی اور کو جی ایچ کیو کی طرف سے گزرنے کی اجازت دینے کے بھی روادار نظر نہیں آئے تھے۔ کہاں یہ رقیق القلبی کہ کسی رابطے پر ناک بھوں نہیں چڑھا رہے۔ یہ اچانک ان کی کایا کلپ کیوں اور کیسے ہو گئی۔ یہ تو وہی جانتے ہیں مگر اندرون خانہ رابطہ کار بتا رہے ہیںکہ اس وقت فوج کے ساتھ بہت سی دوسری سیاسی جماعتیں بھی شیروشکر ہو رہی ہیں جسے عوامی زبان میں ہم
ملے میں تے میرا چن ماہی
جیویں ٹچ بٹناں دی جوڑی
کہتے ہیں۔ مگر شیخ جی ان معاملات کو صرف رابطے کا نام دیکر اپنے دل کو تسلی دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی کہہ رہے ہیں خطرے کی کوئی بات نہیں، حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔ مگر سب جانتے ہیں جب اپوزیشن اور فوج کے درمیان خوشگوار تعلقات کو فروغ ملتا ہے تو اس کے سب سے زیادہ اثرات حکومت پر ہی مرتب ہوتے ہیں۔ اس وقت سیاسی مطلع خاصہ گردآلود ہے۔ ذرا مطلع صاف ہو تو عید کے چاند کی طرح سب کو اصل صورتحال نظر آئے گی اور معلوم ہوگا کہ سیاسی شطرنج پر اب کونسی چال چلی جا رہی ہے۔ مخبر بتا رہے ہیں کہ شوکت ترین بھی ایک بار پھر انگڑائی لیکر اپنی تھکان اتار رہے ہیں۔ ان کے حامی ابھی تک نچلا نہیں بیٹھے، وہ اپنے کس بل دکھانے کے موڈ میں ہیں۔ اس بار کچھ نئے کھلاڑی بھی ان کی صف میں دکھائی دے سکتے ہیں۔
٭٭……٭٭
ایدھی ایمبولینسیں مصر کے راستے غزہ پہنچ گئیں
جنہوں نے کچھ کرنا ہوتا ہے، وہ کسی اچھے وقت یا موقع کا انتظار نہیں کرتے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا…؎
جرم کرنا ہے تو پھر پائوں کی زنجیر نہ دیکھ
اپنے بگڑے ہوئے حالات کی تصویر نہ دیکھ
ایسے ہی بگڑے حالات اس وقت اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے بعد غزہ (فلسطین) میں نظر آرہے ہیں۔ نہتے فلسطینیوں کا جان مال اسرائیلی قاہر افواج کی وحشیانہ بمباری کی زد میںہے سینکڑوں فلسطینی شہید ہو رہے ہیں۔ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن رہی ہیں۔ ہسپتال زخمیوں اور لاشوں سے بھر گئے ہیں۔ ان حالات میں انہیں طبی امداد فراہم کرنا، زخمیوں کی جانیں بچانا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس میں پہل کرکے ایدھی والوں نے ایک بار پھر لوگوں کے دل جیت لئے۔ ایدھی والوں نے تو ہمارے ازلی دشمن بھارت کو بھی کرونا سے متاثرین کی مدد کیلئے ایمبولینسوں کا دستہ بھیجنے کی پیشکش کی تھی، وہ شاید آج بھی واہگہ بارڈر پر تیار کھڑی ہیں۔ مگر بھارت نے رعونت سے انکار کر دیا۔ اب خدا کی قدرت دیکھیں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد سب سے پہلے ایدھی والوں کی ایمبولینسیں ہی غزہ پہنچیں جو مصر کے راستے وہاں داخل ہوئی ہیں۔ انہوں نے وہاں اپنی ڈیوٹی بھی سنبھال لی ہے۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر درجنوں ایدھی رضاکار اب وہاں شدیدبمباری کے باوجود زخمیوں کی جان بچانے کیلئے مصروف عمل ہیں۔ ہماری روایتی، مذہبی و سیاسی جماعتیں البتہ پاکستان اور دنیا بھر کے لوگوں سے صرف چندے کی اپیلیں کرکے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا کام ہی اب افغانستان، شام، کشمیر اور اب فلسطین کے نام پر صدقات، عطیات، زکوٰۃ اور قربانی کی کھالیں جمع کرنا رہ گیا ہے۔ کاش دیگر مسلم رفاعی ادارے بھی غزہ کی طرف کوچ کریں وہ انسانوں کی زندگیاں بچائیں۔
٭٭……٭٭
برائلر کے نرخوں میں 3 روپے فی کلو کمی
برائلر کا مطلب سب فارمی مرغی کا گوشت لیتے ہیں۔ سو اب دو سو روپے کے اضافے کے بعد عید گزرتے ہی اس کی قیمت میں ان ناجائز منافع خوروں نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے 3 روپے فی کلو جو کمی کی ہے اس سے خطرہ ہے کہ کہیں یہ خبر سننے کے بعد کئی کمزور دل لوگ شادی مرگ کی کیفیت میں مبتلا ہوکر جہان فانی سے ہی نہ کوچ کرجائیں۔ یوں برائلر کا سستا گوشت کھانے کی حسرت ان کے دل ہی میں رہ جائے۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں جس چیز کی قیمت جب بڑھتی ہے تو سینکڑوں کے حساب سے بڑھتی ہے جب کمی کا مسئلہ درپیش ہو تو وہ صرف ایک دو یا تین روپے تک ہی محدود رہتا ہے۔ ’’کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں‘‘ فارمی مرغی کا گوشت اس بار جس طرح عوام کی دسترس سے دور ہوا۔ وہ حیرت انگیز ہے۔ 2 سو روپے سے جست مار کر یکدم 400 روپے تک پہنچ گیا۔ اتنی پرواز تو مرغی کی نہیں ہوتی وہ بے چاری بھی چند قدم یا چند فٹ تک چھلانگ لگاتی ہے۔ اس سے آگے اس کی قوت پرواز ہی نہیں۔ مگر اس کی قیمت تو چیتے کی رفتار اور شاہین کی پرواز بن کر نئی تاریخ رقم کرگئی۔ کوئی اف تک نہ کرسکا بس ہاتھ ملتے رہ گئے۔ مگر مرغی نے آنکھ اٹھا کر کسی کی طرف نہیں دیکھا اور یوں چکن کھانے کے شوقین ’’مرغی تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ‘‘ کہتے ہوئے کف افسوس ملتے ہے۔ اب نجانے کس طرح چکن مافیا کو ترس آگیا اور انہوں نے 3 روپے فی کلو کمی کرکے صارفین پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ امید ہے لوگ اس احسان عظیم پر ان کا شکریہ ادا کرتے پھر رہے ہوں گے۔
٭٭……٭٭
سعودی عرب میں آسمانی بجلی گرنے سے چٹان دو حصوں میں تقسیم
دنیا میں ایسے واقعات اکثر نظر آتے ہیں جو ہمارے دل و دماغ کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ ایسے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک عظیم بزرگ و برتر طاقت موجود ہے جو جب چاہے جو چاہے کرسکتی ہے۔ ساری کائنات اس کے ایک اشارے پر فنا ہوسکتی ہے۔ یہ اس خدائے بزرگ برتر کی طاقت کا ایک خوبصورت نظارہ تھا کہ آسمانی بجلی نے ایک سنگلاخ پہاڑی چٹان کو چشم زدن میں دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عاد و ثمود اور لوط پر جو بجلی کی کڑک پتھروں کی بارش اور بستیوں کو الٹا کرنے کے عذاب آئے وہ صرف قصے کہانیاں نہیں حقیقت ہیں۔ یہ بستیاں آج بھی ’’دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو‘‘ کی عملی تصویر بنی عالم انسان کو اپنی اوقات میں رہنے کی دعوت دیتے ہیں مگر انسان آج بھی فرعون، نمرود اور شداد بنا بیٹھا ہے۔ حالانکہ یہ واقعات قدم قدم پر ہمیں اشارے دیتے ہیں کہ بندے دا پتر بن۔ فرہاد کو شیریں کو پانے کیلئے ایک تیشے کی مدد سے کئی سال لگ گئے نہر کھودنے پہاڑی کا سینہ چیرنے میں۔ مگر یہاں چشم زدن میں بجلی کوندے کی طرح چمکی اور سینۂ چٹان پر گری جس کی تمام تر سختی اور سنگلاخی کے باوجود اس کے دو ٹکڑے کردیئے۔ اب کوئی چاہے تو وہاں سے دودھ کی نہر نکال سکتا ہے۔ خدا جانے یہ واقعہ غزہ میں بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام پر عالم عرب کی خاموشی پر تازیانہ عبرت ہے یا کچھ اور۔ اگر عرب آج بھی نہ سمجھے تو کہیں پتھروں کی بارش یا بستیاں الٹانے کے واقعات بھی ہمیں دیکھنے نہ پڑیں۔ صرف عرب ہی کیا پوری دنیا کے مسلمان سزا کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ ایسے واقعات عقل مندوں کیلئے عبرت کا سامان رکھتے ہیں۔
٭٭……٭٭