پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان کہتے ہیں کہ ہم دو ہزار تئیس تک اپنی ٹیم کو ہر طرز کی کرکٹ میں ٹاپ تھری پوزیشنز پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی ٹیم کے دورہ ویسٹ انڈیز کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے کیا۔ حقیقت ہے کہ یہ خواہش صرف وسیم خان کی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کی ہے۔ پاکستان میں کرکٹ کو پسند کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور اس کھیل کی پسندیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قومی ٹیم زمبابوے جیسی کمزور ٹیم کے خلاف بھی میچ جیتے تو اعلیٰ حکومتی شخصیات کی طرف سے بھی مبارکباد کے پیغامات جاری کیے جاتے ہیں۔ ان پیغامات کی وجہ میڈیا میں نمایاں حاضری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہوتا کیونکہ ان حکومتی شخصیات کو کھیل نہیں کوریج زیادہ پیاری ہوتی ہے اگر یہ کھیل کو پسند کرنے والے حکمران ہوتے ہو پاکستان ہاکی فیڈریشن کو اپنے کھلاڑیوں کی ویکسینیشن کے لیے بار بار حکومت سے درخواست نہ کرنا پڑتی۔ زمبابوے جیسی ٹیم کے خلاف بھی مبارکباد کے پیغامات صرف اور صرف ٹیلیویڑن اور اخبارات میں حاضری کی حد تک اہمیت رکھتے ہیں اور یہ اہمیت کرکٹ کی مقبولیت سے جڑی ہے۔ کھیل کی اس مقبولیت کی وجہ سے کروڑوں پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ قومی ٹیم ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹونٹی ٹونٹی میں ٹاپ تھری نہیں بلکہ پہلے نمبر پر ہو لوگ اس معاملے میں دوسرا یا تیسرا نمبر بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان حالات میں وسیم خان نے کوئی غیر معمولی بات نہیں کی یہ بات کرتے ہوئے وہ کرکٹ کے ایک شائق ہی معلوم ہوتے ہیں اس حد تک ان کے جذبات قابلِ تعریف ہیں لیکن جب ان کی اس خواہش کے بعد کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی حیثیت کو دیکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹاپ تھری میں آنے کے لیے انہوں نے کیا اقدامات کیے ہیں، کیا وہ اپنی خواہش دنیا تک پہنچانے کے لیے پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو ہیں یا پھر ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دنیا کو بتا سکیں کہ ہم نے گذشتہ دو تین برس میں یہ انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں، مختصر مدت میں اس کے یہ نتائج ہیں اور ان اقدامات کے نتیجے میں ہم دو ہزار تئیس تک دنیا کی تین بہترین ٹیموں میں شامل ہوں گے۔
بدقسمتی سے وسیم خان کے پاس اقدامات کے حوالے سے قوم کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہ خیالی دنیا میں ہیں اور اس دنیا میں رہتے ہوئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم ناقابلِ شکست ہیں، دنیا میں کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا، ہم بیک وقت تین بہترین ٹیمیں بنا کر دنیا کی تین بہترین ٹیموں کے خلاف کھیل سکتے ہیں، ہمارے پاس کھلاڑیوں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ ایک کھلاڑی کے تین تین چار متبادل موجود ہیں۔ خیالی دنیا میں یہ سب کہا جا سکتا ہے لیکن جب وہ زمین پر آئیں گے تو معلوم ہو گا کہ بیان جاری کرنے اور کام کرنے میں بہت فرق ہے۔ کرکٹ کے میدان دنیا کی تین بہترین ٹیموں میں شامل ہونے کے لیے صرف بیانات جاری کرنے سے کامیابی نہیں مل سکتی بلکہ اس کے لیے تعمیری کام کرنا پڑتا ہے۔ تعمیری کام کرنے کے لیے بہت اچھی سوچ اور معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ بروقت فیصلہ کرنے کی قوت کا ہونا بھی ضروری ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ بورڈ انتظامیہ یہ صلاحیتیں رکھتی ہے یا نہیں، چلیں یہ بحث ادھار رکھتے ہوئے گذرے وقت اور کرکٹ بورڈ انتظامیہ کے چند فیصلے آپ کے سامنے رکھتے ہیں آپ خود فیصلہ کیجئے کہ ان فیصلوں کے بعد کسی کی اہلیت بارے کوئی شک باقی رہتا ہے اور کیا یہ آنے والے دنوں میں کوئی بہتر کام کر سکتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ نے آسٹریلیا کے ڈومیسٹک سٹرکچر کی نقل میں فرسٹ کلاس کی سولہ ٹیموں کا نظام ختم کر کے اسے چھ ٹیموں تک محدود کر دیا۔ اس فیصلے سے کھلاڑیوں کے لیے کھیل کے مواقع کم ہوئے اور کئی باصلاحیت کرکٹرز کھیل چھوڑ کر معمولی ملازمتوں پر مجبور ہو گئے۔ یہی نہیں بلکہ کرکٹرز ملک چھوڑ کر بھی جانے لگے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے آسٹریلیا کی نقل میں ٹیموں کی تعداد کم کی اور اب آسٹریلیا میں فرسٹ کلاس ٹیموں کی تعداد بڑھانے پر غور ہو رہا ہے۔ کیا اب یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ اس "نقل" کا ہمیں کیا فائدہ ہوا اور اب ہم مستقبل میں کیا کریں گے؟؟؟لگ بھگ چالیس ٹیموں کی کرکٹ بارہ ٹیموں تک محدود کرنے کا ظلم کرنے کے بعد کرکٹ بورڈ نے ملک بھر میں کلب کرکٹ کو بند کر دیا، نیشنل کرکٹ اکیڈمی کا نام بدل کر نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر کرنے کا نہایت مشکل کام سرانجام دیا۔ کلب کرکٹ بند ہونے سے کھیل کے میدانوں کو تالے لگ گئے، گراؤنڈ سٹاف کو فارغ کر دیا گیا اور برسوں کی محنت اور بھاری سرمائے کو ضائع کر دیا گیا، پھر ملکی کرکٹ کی تقدیر بدلنے کے لیے ندیم خان جیسے قابل اور پیشہ وارانہ خوبیوں سے مالا مال شخص کو اہم ذمہ داری دی انہوں نے چھ ماہ میں تبدیلی کا نعرہ لگایا اور کارکردگی یہ ہے کہ لگ بھگ عہدے پر ایک سال گذارنے کے باوجود وہ آج تک ملک میں کلب کرکٹ بھی شروع کروانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ وہ اپنے چیف ایگزیکٹیو کی طرح یقیناً بہت اہل ہوں گے، باصلاحیت ہوں گے لیکن حقائق نے سب کی اہلیت پر سوالیہ نشان لگا رکھا ہے۔
ملک بھر میں جونیئر کرکٹ بند ہے اور قومی ٹیمیں باقاعدہ کسی نظام کے بجائے اوپن ٹرائلز پر بن رہی ہیں، کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے، کیا اس نظام سے پائیدار کامیابی ممکن ہے، ٹرائلز والے نظام پر کرکٹ بورڈ حکام کو جواب ضرور دینا چاہیے۔ ٹاپ تھری میں جانے کی خواہش کرنے والے کیا قوم کو یہ بتا سکتے ہیں کہ لاکھوں ماہانہ کمانے والے کرکٹرز کو چالیس ہزار تک محدود کرنے کے بعد بہتری کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ کھیل کے مواقع، بہتر طرز زندگی کے مواقع کم کرنے کے بعد کھلاڑیوں کے لیے کھیل میں کشش کیسے رہ پائے گی؟؟؟
جناب چیف ایگزیکٹیو صاحب کتنی مرتبہ کرکٹ کمیٹی کا سربراہ بدلا گیا ہے، چیف سلیکٹر کو کتنا وقت دیا گیا ہے، موجودہ چیف سلیکٹر کو کس بنیاد پر لگایا گیا ہے، سٹیک ہولڈرز سے اختلافات میں شدت سے کھیل کی ترقی کیسے ممکن ہے، جہاں چیئرمین کرکٹ بورڈ ایک سے زیادہ اداروں میں مصروف ہو وہاں روزانہ اختلافات کی خبریں نہیں تو کیا ہو گا۔ آپ ٹاپ تھری میں جانے کی بات تو کر سکتے ہیں لیکن کیا قوم کو یہ بتا سکتے ہیں کہ اچھے بھلے حالات میں پاکستان سپر لیگ کو مسلسل دو مرتبہ ملتوی کیوں کیا گیا، پی ایس ایل کے مستقبل پر مسلسل خطرات کے بادل کیوں ہیں، اربوں روپے ڈومیسٹک کرکٹ پر لگا کر وہاں سے کیا حاصل ہوا ہے؟؟؟
آپ ٹاپ تھری میں جانے کی خواہش تو کر سکتے ہیں لیکن کیا قوم کو بتا سکتے ہیں کہ دو ہزار اکیس میں ہونے والی ورلڈ ٹونٹی ٹونٹی چیمپیئن شپ کے لیے تیاریاں کہاں تک پہنچی ہیں، ایونٹ سر پر آ چکا نہ آپ کے مڈل آرڈر کا پتہ ہے، نہ آپ کے اوپنرز کا پتہ ہے، نہ کسی کو آپ کے سپنرز کا کچھ علم ہے کیا ایسے ٹاپ تھری میں آئیں گے۔ آپ ٹاپ تھری میں آنے کی خواہش کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ ویسٹ انڈیز میں محض دو ٹونٹی ٹونٹی میچوں کے لیے ایک ٹیسٹ میچ قربان کر دیا گیا ہے، کیا ہمیں ٹیسٹ کی تین بہترین ٹیموں میں نہیں آنا، ہم نے ٹیسٹ میچ کی قربانی کیوں دی، کیا ہم سائیڈ میچ پر سمجھوتا نہیں کر سکتے تھے۔ کیا آپ دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ اظہر علی کے متبادل کے طور پر کسے تیار کیا جا رہا ہے، یاسر شاہ کا متبادل کون ہو سکتا ہے، محمد رضوان کا متبادل کون ہو سکتا ہے، آپ کے پاس کوئی مستند باؤلنگ آل راؤنڈر نہیں، ایک کے بعد دوسرا مستند وکٹ کیپر بلے باز نہیں، تین بلے بازوں کے بعد آپ کی بیٹنگ ختم ہو جاتی ہے، کیا ایسے دنیا کی تین بہترین ٹیموں میں شامل ہو سکتے ہیں، بابر اعظم کے علاوہ کون کپتانی کر سکتا ہے، کیا کوئی جواب دے سکتا ہے، کیا دنیا پر ایسے حکمرانی کی جا سکتی ہے؟؟؟ دنیا دو دو بہترین ٹیمیں اور تین تین کپتان تیار کر رہی ہے اور ہم تین آؤٹ ہونے کے بعد بلے باز ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔
دنیا پر حکمرانی کے لیے بیانات نہیں کام کی ضرورت ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی ستر فیصد سے زیادہ توجہ بیانات، ویڈیوز جاری کرنے اور کرکٹ کو ڈیجیٹل میڈیا پر زندہ رکھنے میں نظر آتی ہے۔ یہ کام کرنے والے یقیناً تعریف کے مستحق ہیں کیونکہ وہ بہت میٹھے انداز میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ کیا بورڈ حکام کے لیے ضروری نہیں کہ خیالی دنیا سے باہر نکلیں، دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ خواہشات کرنے کے لیے کروڑوں لوگ ہیں بورڈ کی ذمہ داری خواہشات کو حقیقت میں بدلنا ہے۔ کیا موجودہ بورڈ کروڑوں پاکستانیوں کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
کیا ہر سطح کی کرکٹ بند کر کے، کھلاڑیوں سے کرکٹ اور روزگار چھین کر ہم ٹاپ تھری میں آ سکتے ہیں؟؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024