دینی اقتدار پر سمجھوتہ ممکن نہیں
حکومت پاکستان نے یورپی پارلیمنٹ کی پاکستان مخالف قرارداد کے جواب میں ناموس رسالت کے قانون کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے پاکستان کے خلاف جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر نظرثانی کی قرارداد منظور ہونے کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان کی ریاست نہ خود اور نہ کسی کو مذہب کے نام پر تشدد کی ہرگز اجازت نہیں دے گی۔ بلکہ تمام یورپی یونین کے ممالک سے اس معاملے پر بات کی جائے گی۔ جی ایس پی پلس اسٹیٹس ختم ہونے سے پاکستان کو تین ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہوسکتا ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ انسانی آزادیوں کے حقوق، جبری گمشدگیوں کے خاتمے، اقلیتوں کے تحفظ، خواتین کے حقوق سمیت 8 معاہدے ہوئے تھے۔ لیکن معاہدے میں مذہب اور دینی اقتدار کے حوالے سے کوئی شرائط طے نہیں کی گئی تھی۔ اسی لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ناموس رسالت کے تحفظ کے قانون اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے معاملے پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔وزیراعظم عمران خان نے مسلم ممالک کے سفیروں سے ملاقات میں اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ پر بات چیت بھی کی ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسلاموفوبیا مذاہب کو تقسیم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ اسلام کو دہشتگردی اور انتہا پسندی سے جوڑنا نامناسب ہے۔ مقدس شخصیات کی توہین سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔پاکستان یورپی یونین کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے تیار ہے۔ لیکن توہین رسالت قانون اور مسلمانوں کے دینی اقتدار کے معاملے پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں یورپی پارلیمان میں بھاری اکثریت سے منظور کی جانے والی ایک قرارداد میں یورپی کمیشن سے مطالبہ کیا گیا
تھا کہ وہ 2014 میں پاکستان کو جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز (جی ایس پی) پلس کے تحت دی گئی تجارتی رعایتوں پر فی الفور نظرثانی کرے۔اس قرارداد میں پاکستان کی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ توہین رسالت کے قانون کی دفعات 295 سی اور بی کو ختم کرے۔اس قرارداد میں حکومت پاکستان سے انسداد دہشت گردی کے 1997 کے قانون میں بھی ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تاکہ توہین رسالت کے مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں نہ کی جائے اور توہین رسالت کے مقدمات میں ملزمان کو ضمانتیں مل سکیں۔ پاکستانی حکومت نے یورپی پارلیمنٹ کی پاکستان مخالف قرارداد کے جواب میں ناموس رسالت کے قانون اور قادنیوں کو کافر قرار دینے کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا احسن فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم کی سربراہی میں ایک اجلاس منعقد ہوا تھا۔ جس میں یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر نظرثانی کی قرارداد منظور ہونے کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ جی ایس پی سکیم کے تحت ترقی پذیر ممالک کی یورپی یونین کی منڈیوں میں آنے والی مصنوعات سے درآمدی ڈیوٹی ہٹا دی جاتی ہے۔ جی ایس پی پلس اسٹیٹس ختم ہونے سے پاکستان کو تین ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی 25 فیصد ایکسپورٹ یورپی ممالک سے تعلق رکھتی ہیں اور اگر یہ ممالک پاکستان کو جی ایس پی پلس کا دیا گیا اگر اب وہ یہ رتبہ واپس لے لیں تو یہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ یورپی یونین کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو 2014 میں جی ایس پی پلس کا درجہ دیے جانے کے بعد پاکستان اور یورپی یونین کے ملکوں میں تجارت میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کے اقتصادی سروے سال 2019-20 کے مطابق یورپی یونین پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے۔اس سروے میں کہا گیا ہے کہ جی ایس پی پلس کے تحت پاکستانی مصنوعات کو یورپی یونین کے 27 ملکوں میں بغیر کسی ڈیوٹی کے رسائی حاصل ہے۔ یورپی یونین میں یہ سہولت میسر آنے کے بعد پاکستان کی برآمدات میں کئی سو کروڑ کا اضافہ ہوا۔ 2013-14 کے مالی سال میں پاکستان کی برآمدات 11,960.59 ملین ڈالر تھیں جو سنہ 2018-19 میں 14,158.29 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔یورپی یونین کو پاکستان امریکہ سے دگنا مال فروخت کرتا ہے۔ جبکہ چین کے مقابلے میں یہ تین گنا زیادہ ہے۔یورپی یونین کو برآمد کئے جانے والے مال میں سب سے زیادہ مقدار ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی ہے۔ پاکستان سے یورپی یونین برآمد کے جانے والی اشیا میں 76 فیصد حصہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات کا بنتا ہے۔ پاکستان کی درآمدات میں بھی یورپی یونین کا ایک نمایاں حصہ ہے اور پاکستان کی مجموعی درآمدات میں اس کا تیسرا نمبر ہے۔ یورپی یونین سے پاکستان زیادہ تر بجلی کے آلات، مواصلات کا ساز و سامان، کیمیکل اور ادویات خریدتا ہے۔۔یورپی پارلیمان میں منظور ہونے والی قرارداد میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ پاکستان میں لاگو توہین رسالت کے قانون کے تحت ابھی تک کسی بھی مجرم کو موت کی سزا نہیں دی گئی ہے۔کہا گیا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے ’اقلیتوں کو خوف زدہ‘ کیا جاتا ہے ان پر ’تشدد کیا جاتا ہے‘ اور ’توہین رسالت کا الزام لگا کر اقلیتی برادری کے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے۔‘ قرارداد میں پاکستان میں فرانس کی حکومت کے خلاف حالیہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاج کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کی قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے پر بحث کرنے سے متعلق قرارداد کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دینا مسئلے کا حل نہیں۔ کیونکہ مغرب اس معاملے کو اظہارِ رائے کی آزادی سے جوڑتا ہے۔