مٹی مٹی
اس سے پہلے یہ مٹی مٹی ہو جائے مٹی کے اندر
مٹی کو مٹی میں ملا دے بندہ خدائے مٹی کے اندر
مٹی وہی افضل جو نہ ستائے نہ دکھائے نہ اترائے
دوام وہی پائے جو خواہشات نفس جلائے مٹی کے اندر
آج جو گل کھلانے ہیں کھلا لے تو مٹی کے اوپر
کہیں ایسا نہ ہو کل کو پھر پچھتائے مٹی کے اندر
یہ ٹھیکرا مٹی کا جتنا بھی اچھا اور نفیس ہو گا
تھوڑی دیر کے بعد پھر یہ مٹی کہلائے مٹی کے اندر
اے مٹی تجھے اس ٹھوٹھے پہ اترانے کا حق ہے کیا
تجھے مٹی میں آخر یہاں کون پہنچائے مٹی کے اندر
جس مٹی کے اندر سدا خواہشات آگ بن کے جلتی ہیں
اسی مٹی کو مٹی اپنے ہاتھوں سے دفنائے مٹی کے اندر
بڑی چاہ سے مٹی کو مٹی کاندھوں پہ اٹھا کر
بڑے کرب سے درد سے پھر مٹی میں ملائے مٹی کے اندر
جس ماٹی کے پتلے کو تو سنبھال سنبھال رکھتا ہے
اس مٹی کو آخر پھر مٹی ہی کھائے مٹی کے اندر
اے مٹی تم لاکھ پھول بوٹے سجائے تنِ مٹی پہ آخر
دیکھ لینا ایک دن سبھی زیر مٹی مہکائے مٹی کے اندر
کیا سچ ہے حفیظ جہاں کا خمیر وہی آن پہنچے
پھر مٹی مٹی میں کیوں نہ مل پائے مٹی کے اندر
( محمد حفیظ مغل ، برطانیہ)