بلوچستان کابینہ میں اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ کچھ استعفوں کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں، گذشتہ کئی ہفتوں سے بلوچستان اسمبلی کے اہم افراد آمنے سامنے تھے۔ یہ صورتحال نہیں ہونی چاہیے تھی۔ سیاسی لوگوں کی خوبی ہی بات چیت ہوتی ہے، بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالنا ہی سب سے بہتر ہے۔ اراکین اسمبلی میں تعمیری اور بامقصد بات چیت ہونا چاہیے تھی گوکہ یہ نہیں ہو سکا اور موجودہ حالات میں حکومت کے لیے آنے والے چند دن اس حوالے سے مشکل ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو پھر اس کا اثر دیگر صوبوں پر بھی پڑ سکتا ہے اور کچھ نہیں تو کم ز کم حکومت پر دباؤ میں اضافہ ضرور ہو گا۔ بلوچستان کے سیاسی و دفاعی مسائل اور حالات دیگر صوبوں سے مختلف ہیں۔ وہاں طرز سیاست بھی ملک کے دیگر صوبوں سے ذرا مختلف ہے، بلوچ سرداروں کا طرز سیاست بھی پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا سے ذرا مختلف لیکن ایک قدر مشترک ہے کہ موقع ملنے یا موافق حالات ملنے پر رنگ بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ سرداروں کا طرز سیاست مختلف اس لحاظ سے ہے کہ وہ قبائل کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، مشکل حالات کا مقابلہ ڈٹ کر کرتے ہیں۔ اپنا موقف واضح انداز میں پیش کرتے ہیں، مشکل حالات کے باوجود وفاق کی سیاست کرتے ہیں، گلے شکوے کرتے ہیں لیکن پاکستان کے جھنڈے تلے جمع ہونے کو سب سے اہم سمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں مقامی افراد کے کچھ مسائل بھی ہیں ان افراد کے پیچھے ملک دشمن طاقتیں بھی ہیں، بلوچستان اپنی جغرافیہ کی وجہ سے بھی ملک دشمنوں کے نشانے پر ہے۔ دشمن بلوچستان کے امن کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر وقت کوششیں کرتا رہتا ہے۔ ماضی قریب میں بھی اس حوالے سے کئی تکلیف دہ واقعات نظر آتے ہیں جب کہ ایسے واقعات کی تاریخ بھی نہایت تکلیف دہ ہے۔
چونکہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہے اور اس نظام حکومت کا تقاضا ہے کہ سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ بالخصوص بلوچستان میں سیاسی خاندانوں، سرداروں اور ان کے بیٹوں کو ہر وقت ساتھ ملانا، ان کی اہمیت جائز مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ہی معاملات کو بہتر انداز میں آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگر روایات کو نظر انداز کیا جائے، سرداروں کو ان کا جائز حق اور مقام نہ دیا جائے تو اہم عہدے بھی اہمیت نہیں رکھتے۔ حکمران بعض اوقات بلوچ روایات کو نظر انداز کرتے ہیں جس وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بعض اوقات بلوچ سردار بھی غیر ضروری طور پر سخت رویہ اختیار کرتے ہیں جس وجہ سے معاملات آگے بڑھ نہیں پاتے یا مسائل حل نہیں ہو پاتے۔ بلوچ سرداروں کے سخت رویے کی بھی ایک تاریخ ہے اور اس کی وجہ بھی ماضی کے حکمرانوں کے غلط فیصلے ہیں۔ بلوچوں میں یہ سوچ ضرور پائی جاتی ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی، زیادتی اور حق تلفی کی گئی ہے۔ یہ تاثر ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں اس وقت حالات یہ ہیں کہ سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزرا میں مستعفی ہونے کے حوالے اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے۔ سپیکر عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزرا نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کیساتھ مزید کام نہ کرنیکا فیصلہ کیا ہے۔ باخبر دوست بتاتے ہیں کہ سردار یار محمد رند، ظہور بلیدی سمیت دیگر وزرا مستعفیٰ ہونے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ صوبائی حکومت کے مخالف دھڑے کا موقف ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی طرف سے انتقامی کارروائیاں جاری ہیں۔ سیاسی پوگ آمنے سامنے ہیں وزیراعلیٰ جام کمال سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو پر حکومتی ارکان سے امتیازی سلوک اور اپوزیشن کو زیادہ وقت دینیکاالزام لگا چکے ہیں۔ عید الفطر سے قبل وزیراعلیٰ نے صالح بھوتانی سے بلدیات کی وزارت بھی واپس لے لی تھی۔
بلوچستان میں سیاسی تبدیلیوں کا شور بلند ہوا تو گورنر کی تبدیلی سے قبل ہی وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد کے لیے کام شروع ہو چکا تھا۔ اس حوالے سے بلوچستان میں سیاسی ملاقاتیں اور مشاورت کافی دنوں سے ہو رہی تھی۔ بلوچستان سیاسی اعتبار سے مشکل صوبہ ہے وہاں کے مسائل ہر لحاظ سے مختلف ہیں۔ اس صوبے کے سیاسی اور زمینی حالات دیگر صوبوں سے مکمل طور پر مختلف ہیں۔ بلوچستان سندھ اور دیگر صوبوں سے بہت مختلف اور مشکل صوبہ ہے۔ بلوچستان اس لیے بھی مشکل صوبہ ہے کہ یہاں غیر ملکی ایجنسیوں کی کارروائیوں کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے، بلوچستان کو مختلف ملک دشمن طاقتوں نے نشانے پر رکھا ہوا ہے اور وہ یہاں اپنا کھیل کھیلنے کی کوششوں میں رہتی ہیں۔ گوادر کی وجہ سے بھی بہت سی نظریں یہاں جمی رہتی ہیں۔ ان حساس معاملات کو دیکھتے ہوئے ذرا سی کوتاہی سے بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان میں وفاق کی مضبوطی قومی اثاثوں کے تحفظ اور بلوچ قبائل کو متحد رکھنے کی حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ یہ صرف سیاسی نظام ہی نہیں بلکہ بہتر بلوچستان اور بہتر پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد یا اسمبلیوں سے استعفوں سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ معیشت پہلے ہی کمزور ہے اور اگر سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے تو معاشی عدم استحکام بھی پیدا ہو گا۔ سیاسی قوتوں کو بہتر، ترقی یافتہ بلوچستان اور بہتر پاکستان کے لیے متحد ہو کر کام کرنا چاہیے۔ بلوچستان کے سیاستدانوں کو بھی سنجیدہ سیاست کی طرف بڑھنا چاہیے اگر وہ ہر وقت ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف رہیں گے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان بلوچستان اور وہاں سہولیات سے محروم عوام کا ہو گا، کیا بلوچ سردار یہی چاہتے ہیں، کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسمبلی اکھاڑہ بنی رہے اگر آج وہ جام کمال کو ہٹائیں گے کل کوئی انہیں ہٹا دے گا اس سے فائدہ کون اٹھائے گا یہ سوچیں اور پھر جو دل کرے فیصلہ کریں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024