رئیس المتغزلین رہبر فقر مولانا حسرت موہانی
رئیس المتغزلین رہبر فقر سید الاحرار پیکر حسرت مجسمہ جرات آوا ز میں نسوانیت فکرو عمل میں یکسانیت عزم و ہمت کا کوہ گراں اک سچا پکا مسلمان مناسب قد سانولا رنگ چہرے پر داڑھی اور چیچک کے داغ مگر ساری زندگی ہوس طمع اور خوف سے بے داغ باعمل بامراد نام سید فضل حسین حسرت تخلص موہان جائے پیدائش ۔ راقم کے والد اکثر ذکر فرماتے کہ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر محمود احمد خان دائودزئی مسلم لیگ کے بڑے جذباتی اور فعال کارکن تھے وہ ہندوستان بھرمیں مسلم لیگ کے منعقدہ اجلاس میںبطور نیشنل گارڈ شرکت کرتے ۔ دوران اجلاس سٹیج پر حضرت قائد کے پیچھے نیشنل گارڈ کی وردی میں تلوار لئے کھڑے ہوتے جس پر قائد نے اکثر خوش ہو کر شفقت فرمائی ۔ والد نے اپنے بھائی سے مولانا حسرت موہانی سے ملاقات کے شوق کا اظہار کیا ۔ ایک مرتبہ جانے کا ارادہ ہوا گھر سے نکلنے کے بعد ایک کچی بستی سے گزر ہوا وہاں پر ایک بوڑھا آدمی ملا جس نے تہمد باندھ رکھا تھا وہ چھوٹے سے کچے کمرے میں لے گیا اور مٹی کے برتن میں چائے پیش کی ۔ میرے والد نے اپنے بڑے بھائی کو اشارہ کیا کہ دیر ہو رہی ہے جلدی کریں ہم نے مولانا حسرت موہانی سے آج ملاقات کرنی ہے ۔ والد کے بڑے بھائی مسکرانے لگے اور کہا بھائی یہی تو حضرت مولانا ہیں۔ والد کے بقول میں حیرت کے مارے ششدر ہوگیا ۔ وہ حسرت موہانی ہیں جن کے علم و فضل کی کہانی اورڈنکے تاج برطانیہ تک سنے جاتے ہیں جن کی شاعری لاجواب تحریرو تقریر بے مثال ہے جن کی حق گوئی اور بے باکی سے بڑے بڑے لیڈر گھبراتے ہیں اگر یہ حسرت موہانی ہیں تو یقینا یہ اس دور کا انسان نہیں یہ مسلمانوں پر اللہ کی عنایت ہے ۔ میرے والد مرحوم و مغفور حضرت حسرت موہانی کاذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ۔
مولانا حسرت موہانی ۱۴اکتوبر۱۸۷۸موہان میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی مڈل کے امتحان میں پورے صوبے میں اول آئے پھر فتح پور سے میٹرک وظیفہ کے ساتھ کیا اور علی گڑھ چلے گئے ۔ ریاضی میں بی اے کیا ۔ درس نظامی کی سند حاصل کی ۔ یہ دور وہ تھا جب تعلیم بالکل مفقود تھی ۔ بی اے کسی مسلمان کا کرنا بہت بڑی بات تھی جو لوگ بی اے کی سند حاصل کرتے ۔ بڑی سے بڑی سرکاری ملازمت ان کا انتظار کرتی ۔ عیش و سکون کے ساتھ شاہانہ زندگی گزارتے اور انگریز کے ساتھ مل کر حکمران کہلاتے ۔ جاگیریں لیتے۔ خان بہادر اور سر کے خطابات سے لطف اندوز ہوتے مگر مولانا حسرت موہانی نے اپنی زندگی اس کے برعکس گزارنے کا تہیہ کیا ۔ طوفان کی مخالف سمت اپنی منزل کا تعین کیا ۔ انہوں نے خواہشات کو دبانے اور مشکلات سے ٹکرانے کا عمل پیہم کیا ۔ مولانا حسرت موہانی نے اپنی تمام صلاحیتوں قوتوں کو مسلم قوم کے عزت ووقار کیلئے وقف کر دیا ۔آپ کی حیات و خدمات پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ زندگی کا زیادہ عرصہ آپ نے جیل یا ریل میں گزار ا۔ برصغیر کے مسلم زعما میں آپ نے تقریبا سب سے زیادہ اور سب سے اذیت ناک قید کاٹی جتنے ظلم و ستم آپ پر ہوئے شاید ہی کسی دوسرے مسلم لیڈر پر ہوئے ہوں۔
مفلسی ناداری آپ کے شعرو سخن پر اثر اندازہوسکی نہ ہی قومی ملی فکر کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوئی۔ آپ ایک عاشق مزاج شاعر جرات مند صحافی او ر قابل تقلید سیاسی رہنما تھے ۔ سب کے لئے قابل احترام بزرگ کا مقام رکھتے ۔ سادگی اور انکساری میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ گھر کا سودا سلف خود خریدتے ہمیشہ تیسرے درجے میں سفر کرتے ۔ اردو معلی کے ذریعے شعروادب کی خدمت کی ۔ اپنی اسیری کی داستانیں بھی تحریر کیں ۔ پرانے شعراء کے دیوانوں کے انتخاب شائع کئے اس کے علاوہ ایک کپڑے کی دکان بھی تھی ۔ جیل سے ذرا فرصت ہوتی تو سفر پر نکلتے ۔ آپ نے 77 سالہ زندگی میں بارہ حج کئے اور دو مرتبہ ولایت گئے جو داستان سفر نہایت دلچسپ اور حیران کن ہے ۔
مولانا حسرت موہانی کی زندگی سخت جدوجہد سے عبارت ہے ۔ ساری زندگی مشکلات سے کٹی آپ نے تین مرتبہ قید بامشقت کاٹی ۔ آپ نے ہر قسم کی سخت گیریاں جھیلیں مگر کبھی اپنے فرض عین سے غفلت نہ برتی۔ پہلی مرتبہ 1908ء میں اپنے اخبار اردو معلی میں برطانیہ کی مصر میں پالیسیوں پر تنقید کے جرم میں اخبار ضبط دو سال قید بامشقت اور پانچ سو روپے جرمانہ ہوا ۔ آپ رہائی کے بعد دوبارہ انگریز دشمن پالیسی پر قمر بستہ رہے ۔ دوسری بار 1916ء اپنی مادر علمی علی گڑھ یونیورسٹی کو ایک آزاد خود مختار ادارہ دیکھنے کی جدوجہد میں حد سے گزرنے پر حکومت برطانیہ نے دو سال کی قید سنائی۔ آپ نے علمی تحریک کیلئے یہ سزا بھی مسکراتے ہوئے کاٹی۔ 1921ء میں مسلم لیگ کے اجلاس احمد آباد کی صدارت کرتے ہوئے خطبہ صدارت میں مولانا نے کامل آزادی کا مطالبہ کیا ۔ جس پر خطبہ صدارت ضبط کرتے ہوئے مولانا کو دو سال قید بامشقت کی سزاسنائی۔ ہندوستان کی کوئی جیل ایسی نہ تھی جو آپ کو نہ پہنچاتی ہو ۔تقسیم ہند کے بعد ایک مرتبہ پاکستان تشریف لائے احباب نے اصرار کیا کہ آپ پاکستان کے بانی ہیں یہاں قیام فرمائیں۔ آپ نے کہا میں کروڑوں مسلمانوں کو چھوڑ کر نہیں آسکتا ۔