ممکن ہے کہ جب یہ سطور قارئین کرام کے زیر نظر ہوں تو پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں ینگ ڈاکٹرز اور عملے کی ہڑتال ختم ہو چکی ہو یا خاتمے کے قریب ہوں، مگر جب یہ سطور ضبطِ تحریر میں لائی جا رہی ہیں اس وقت تک بزعم خود مسیحائوں کی ہڑتال کو نو روز سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں پنجاب کروڑوں خاندانوں کے مختلف امراض میں شکار بوڑھوں، بچوں، خواتین اور جوانوں کو بیماری کی حالت میں کس کربناک حالت میں جینا پڑا اس کا اندازہ شاید ایوان اقتدار کے مکینوں کو نہ ہو۔ جنہیں علاج معالجے کی ہر طرح کی اعلیٰ درجہ کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ اچھی سے اچھی گراں بہا ادویات کے بے پناہ وسائل سرکاری طور پر میسر ہیں ا ور انکے اعضاء و جوارح اعلیٰ گریڈوں کے حکام کو بھی ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی ہڑتال سے کوئی فرق محسوس نہ ہوا ہو کہ انہیں بھی تو مخصوص مقاصد کے تحت صوبائی سرکار والاتبار نے یوٹیلٹی الائونس کی مد میں عام آدمی یا دوسرے سرکاری ملازموں کی تنخواہ سے کہیں زیادہ رقم دینے کی منظوری دے رکھی ہے۔ اس ملک کی بدقسمتی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ ملک کے کروڑوں خاندانوں کے بارے میں اس امر کا اظہار کرنا کسی قسم کا انکشاف نہیں ہے کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان سمیت پنجاب میں چالیس فیصد عوام خطِ غربت سے کہیں نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ بات دہرا دینا یا اس کا ضبطِ تحریر میں لانا تو بڑا آسان ہے اور ہر کوئی خواہ وہ اقتدار کی چھتری تلے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے خواہ فاقہ کشی بھوکے ننگے اور خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے والے کروڑوں خاندانوں کا خون نچوڑنے کے مصداق ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کے نتیجے میں اپنے حق کے طور پر حاصل ہونے والی مراعات سے فکر معاشی سے آزاد ہو کر سکون کی نیند سوتا ہے ایسے تمام قسم کے چند ہزار خاندانوں سے عبارت طبقے کے لوگوں کو اس حقیقت کا احساس ہی نہیں ہو سکتا کہ مختلف امراض میں تڑپنے اور درد سے کراہتے کروڑوں لوگوں پر ہسپتالوں کے دروازے بند ہو جانے سے ان پرکیا بیتتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ینگ ڈاکٹرز اور متعلقہ عملے کی ہڑتال پر ایوان اقتدار میں براجمان حکمرانوں اور ایوان اقتدر کی غلام گردشوں تک رسائی حاصل کرنیوالے عناصر کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جانا قدرتی امر ہونا چاہئے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں ہوا۔
ان حقائق کے برعکس اس المناک داستان کا ایک دوسرا رخ انتہائی روح فرسا حقیقت کو لیے ہوئے ہے۔ امر واقع ہے کہ نام نہاد مسیحائوں کی ہڑتال پر اربابِ حکومت کی طرف پائی جانے والی خاموشی پر جہاں عوام پریشاں حال ہسپتالوں میں اپنے مریضوں کو لیے دربدر پھرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور وہاں مریضوں کے علاج کا دروازہ بند ہونے پر انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ایسے ہی دنوں میں انہی سرکاری ہسپتالوں میں اسی بدحال اور پریشان حال عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اس ملک کے میڈیکل کالجوں سے میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہو کر عملی زندی میں سرگرم عمل سینئر ڈاکٹروں کی چاندی ہو جاتی ہے جو ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں میں ہڑتال کے نام پر حاضر ہوتے ہیں وہی اپنے نجی کلنکوں میں بھاری فیسیں غریب مریضوں کے لواحقین سے وصول کر کے اپنی تجوریاں بھرتے چلے جاتے ہیں جبکہ ہڑتالی ڈاکٹروں میں بھی بہت سے ڈاکٹر حضرات اپنی دکانوں میں مریضوں سے من مانے پیسے وصول کرکے انہیں ادویات تجویز کرتے ہیں۔
ابھی تک غریب عوام کے خون سے زندگی کی رعنائیاں حاصل کرنے والوں کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ انکی عین ناک کے نیچے غریبوں سے حاصل ہونے والی بھاری فیسوں سے ٹھاٹھ باٹ کی زندگی گزارنے والے ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی طرف سے نجی کلینکوں کی بھاری بھرکم فیسوں ہی کا نوٹس لیتے۔ غضب خدا کا جس ملک میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کا معاملہ تو ایک طرف رہا‘ سرکاری ہسپتالوں میں تعینات ڈاکٹر حضرات اپنے ذاتی کلینکوں میں مریض کے ایک دفعہ معائنہ پر تین تین ہزار روپے فیس وصول کر رہے ہیں۔اب تو یہ نیا اصول بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض ڈاکٹر مریض کو پہلے پانچ سو روپے کا ایک کارڈ جاری کرتے ہیں پھر اس کارڈ پر تاریخ معائنہ کا اندراج ہوتا ہے اور پھر معائنہ پر مریض سے تین ہزار روپے فیس وصول کی جاتی ہے۔ بے چارے غریب خاندانوں کے مریض اتنی بھاری رقوم کیسے ادا کرتے ہیں؟ غریب خاندان اپنے مریض کی جان بچانے کی خاطر گھریلو سامان سمیت تمام جمع پونجی نچھاور کر دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جو غریب و نادار فاقہ مست گھرانوں کے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور عملے کی ہڑتال کے پس پردہ مقصد بڑے بڑے ڈاکٹروں کے نجی کلینکوں کی دکانداری چمکانا ہے اورغریب خاندانوں کے مریضوں سے من مانی فیسیں وصول کرنا ہے۔ ایسے میں مجبور و بے کس اور بے بسی کی زندگی گزارنے والے عوام کا ارباب اختیار کے دعوئوں اور وعدوں سے اعتبار و اعتماد کا متزلزل ہونا یقینی امر ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں ارباب حکومت کو چین کی بانسری کی لے سے مدہوش رکھنے والے خواہ اپنی سی کتنی بھی کوشش کریں‘ عوام کے حقیقی مسائل اور انکے حل پر نظر آنیوالے اقدامات کے بغیر اعتماد کی فضا کی بحالی کے دعوے فریب اور دھوکہ دینے کے مترادف ہونگے۔ وجوہ خواہ کچھ بھی ہوں‘ مگر موجودہ حکومت کو برسراقتدار آئے کچھ ہفتوں بعد سال گزر جائیگا۔ اس عرصے کے دوران عوامی مسائل کے حل کی طرف کوئی ایک قدم بھی اٹھا نظرنہیں آرہا۔بھوکے ننگے‘ دو وقت کی روٹی کو ترستے اور سرمایہ داروں کی طرف سے مکانوں کے ناقابل یقین حد تک وصول ہونیوالے مکانات کے کرایوں سے نجات کیلئے کسی نجات دہندہ کے انتظار میں آسمان کی طرف نظریں جمائے محروم مراعات عوام کو خوشنما قسم کے الفاظ سے بہلانا اب ممکن نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے رمضان بازاروں اور ضروریات زندگی کی بعض اشیاء کی قیمتوں میں کمی کے اعلانات پر قومی سرمایہ ضائع کیا جا رہاہے مگر ایسی اشیا صارفین کو اونٹ کے منہ میں زیرہ کی ضرب المثل سے کم پر قطاروں میں مہیا ہورہی ہیں۔ لوگ اس صورتحال سے پریشان ہوکر انتظامیہ کو کوسنے پر مجبور ہیں۔ ایسے ہی اگر ماحول نیم مردہ عوام میں اس خواہش کی تمنا کرنا فطری امر ہے کہ ’’کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ۔‘‘
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024