عام تاثر تو یہ ہے کہ پاکستانی ٹیکس ادا نہیں کرتے اور اثاثہ جات ظاہر نہیں کرتے جس سے جہاں معاشی نظام عدم توازن کا شکار ہوتا ہے وہاں غربت کارحجان بڑھ جاتا ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کے بارہ لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے 43 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر افراد کی ہے جو اپنی عمر کی بنیاد پر ٹیکس نادہندگان میں شمار نہیں کئے جاتے۔ ملک کی وہ آبادی جو کسی نہ کسی روزگار سے وابستہ ہے اُسکی تعداد تین کروڑ اسی لاکھ بنتی ہے جس میں سے ڈھائی کروڑ کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو قابلِ ٹیکس آبادی اور اثاثہ جات کو چھپانے کا رحجان یہاں بھی نہیں ملتا ہے۔ اس حوالے سے عمران خان کی ایمنسٹی ''Amnesty'' سکیم بلاشبہ اثاثے ظاہر کرنے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ وزیر خزانہ نے اپنے اعلان میں اس بات کا اعادہ کیا کہ منقولہ اثاثے پاکستان منتقل کرنے پر ٹیکس شرح 4% ہو گی اور منتقل نہ کرنے پر 6% ہو گی۔ حکومت کی طرف سے کالا دھن سفید کرنے کی اس اسکیم سے اُن لوگوں کو فائدہ ہو گا کہ جنہوں نے اپنے اثاثہ جات چھپا رکھے ہیں اور دوسری طرف اُسکے اثرات معاشی استحکام کی صورت میں بھی اثرانداز ہوں گی۔ ماضی کی حکومتوں پر اگر نظر ڈالیں تو اس سے پہلے بھی سکیمیں آئی ہیں۔ 2000ء میں اس سکیم کو وسیع سطح تک پھیلا دیا گیا اس کے بعد 2008ء اور پھر 2013 ء میں بھی ایمنسٹی سکیموں کوجاری کیا گیا لیکن یہ سکیمیں مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکیں۔ مشرف دورِ حکومت میں تو اس سکیم کو یہاں تک بڑھا دیا گیا کہ لوگوں کے گھروں میں جا کر منقولہ اور غیر منقولہ اثاثہ جات کا تخمینہ لگایا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کا خیال تھاکہ اُن کی ٹیم اس سکیم کے ذریعہ اسقدر وسائل پیدا کر لے گی کہ دفاعی اخراجات میں کٹوتی کئے بغیر اداروں کی اصلاح کے لیے بھی وسائل جمع ہو جائیں گے اور معیشت بھی سنبھل جائے گی۔ ٹیکسوں کے نظام کی اصلاح سے غربت جیسے مسئلہ سے نمٹنا تو درکنار سرکاری محکموں کی اصلاحات کا پروگرام بھی اپنے اہداف حاصل نہ کر سکا۔ کیونکہ اسکے لیے ملکی خارجہ ، داخلہ اوراقتصادی پالیسیوں کے درمیان پائے جانے والے تضادات کو ختم کرتے ہوئے اُن مگرمچھوں پر بھی ہاتھ ڈالنا ضروری تھا ، جنہوں نے بیرون ملک منقولہ اور غیرمنقولہ جائیدادیں بنا رکھی تھیں اور ایسے عوامل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے حقیقت پسندانہ سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں حقائق بہت تلخ ہیں۔ 45% پاکستانی غربت کا شکار ہیں اور 35 فیصد خطِ غربت سے نیچے ز ندگی گزار رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہیں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں اور ملک کا نام روشن کرنے کا خواب دیکھنے والے بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچتے ہی کم خوراکی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں جن عوامل پر غور و خوض کی ضرورت ہے وہ ٹیکس نیٹ کو بڑھا کر اور ایمنسٹی سکیم کے ذریعے اُس معاشی نظام کی بنیاد رکھنا ہے کہ جس کے ثمرات غریب تک بھی پہنچ سکیں۔ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں اس سکیم کی کامیابی کی وجہ حکومت کی کوششیں اور لوگوں کا بھرپور تعاون ہوتا ہے اور بجٹ کا زیادہ حصہ عوام کے لیے تعمیری منصوبہ جات پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں صورتحال بالکل مختلف رہی ہے۔ آج بھی ہم بجٹ کا 44 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتے ہیں۔ 34 % وسائل دفاعی اخراجات پر مختص کر دیتے ہیں اور باقی 22 فیصد تمام ملکی امور پر خرچ کرتے ہیں جس میں تمام سرکاری محکموں اور اُن کے ملازمین کی تنخواہیں ہوتی ہیں اور جو بچ جاتا ہے وہ عزیز ہموطنوں پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ ایک قابلِ ذکر بات تو یہ بھی ہے کہ ر یاست اگر خلوص نیت، باہمی تضادات کو ختم کرتے ہوئے اسکیموں کا اجراء کرتی ہے تو اس کا اثر غریب پر بھی پڑتا ہے۔ اور ترقی کے ثمرات غریب تک پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو اطلاق کرنے والی مشنری غیر فعال اور بدعنوان ہو تو اچھے سے اچھے منصوبے خاک میں مل جاتے ہیں۔ اس کے لیے ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائی بھی لازمی حیثیت رکھتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت یہ ہدف مکمل کر پائے گی؟ غریب کواس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ اگر لُوٹا ہوا پیسہ پاکستان آتا ہے یا بصورتِ دیگر منقولہ جائیدادوں پر ٹیکس کا اطلاق ہوتا ہے تو کیا حکومت مضبوط معیشت کی بنیاد رکھ پائے گی۔ اس کے لیے عمران خان کو اُس چشمِ بینا کی ضرورت ہے کہ جو ادراک کر سکے کہ ماضی میں ان منصوبوں کی ناکامی کے کیا اسباب تھے اور مستقبل میں اس ناکامی سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024