نیا پاکستان اور غریب عوام
پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر دس سال کے بعد پاکستان کے غریب عوام کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ ان کا مقدر بدلنے والا ہے مگر افسوس ان کا مقدر نہ بدل سکا - تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جناب عمران خان بھی باربار قوم سے یہ وعدہ کرتے رہے کہ وہ ایک نیا پاکستان بنائیں گے جس میں غریب عوام کو پہلی ترجیح دے کر ان کو غربت کی لکیر سے اوپر لایا جائے گا-سیاسی طور پر نئے پاکستان کو وجود میں آئے 9 ماہ کا عرصہ ہونے والا ہے مگر ابھی تک نئے پاکستان کی کوئی شکل نظر نہیں آ رہی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ غریب عوام کی حالت زار پہلے سے بھی بدتر ہو گئی ہے- سامراجی ڈالر کی بدمعاشی رنگ دکھا رہی ہے-نوماہ کے دوران اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اس قدر ہوشربا اضافہ ہوا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی-دوائیوں میں ہوشربا اضافے سے مریض مر رہے ہیں- یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ نئے پاکستان کے لیڈران مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش کرتے ہوئے بھی نظر نہیں آ رہے-تحریک انصاف کے کارکن متحرک اور فعال نہیں ہیں-حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے میاں نواز شریف نے احتجاج کی کال دے دی ہے-
وزیراعظم عمران خان سٹیٹس کو کے کڑے حامیوں اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے نرغے میں آچکے ہیں- باوثوق شہادتوں کے مطابق شریف بیوروکریسی نے ان کو ٹریپ کرلیا ہے- عمران خان کو چونکہ ایڈمنسٹریشن کا تجربہ نہیں ہے اس لئے انہیں ریاستی امور چلانے کیلئے سخت مشکلات کا سامنا ہے -
دھرتی سے جڑے ماہر معیشت جناب قیصر بنگالی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے غریب عوام کا مقدمہ بڑی بے باکی اور دلیل کے ساتھ پیش کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں امیر ترین افراد اپنے کتوں اور بلیوں کیلئے خوراک بھی درآمد کرتے ہیں جبکہ اسی پاکستان میں ایسے کروڑوں افراد بھی رہتے ہیں جن کو دو وقت کی پوری روٹی نہیں ملتی-قیصر بنگالی نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ غربت کے خاتمے کیلئے جی ڈی پی کا ایک فیصد براہ راست غریب عوام پر خرچ کیا جائے- حکومت نے بینظیر سکیم اور احساس پروگرام کیلئے مالی معاونت کا جو اضافہ کیا ہے وہ مہنگائی کے مقابلے میں ناکافی ہے-
سوال یہ ہے کہ نئے پاکستان کا خواب دکھا کر ووٹ لینے والے وزیراعظم جو خود بھی غریبوں کی وکالت کرتے رہے ہیں جناب قیصر بنگالی کی صائب رائے پر عمل کریں گے اور نئے بجٹ میں غریب عوام کیلئے زیادہ وسائل رکھے جائیں گے؟ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ پاکستان کے 10 فیصد امیر ترین افراد ٹوٹل ٹیکس کا صرف10فیصد ادا کرتے ہیں جبکہ غریب ترین افراد ٹوٹل ٹیکس کا 16فیصد ٹیکس ادا کر رہے ہیں- دس فیصد امیرترین طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد صبح دوبئی روانہ ہوتے ہیں اور شام تک پانچ لاکھ روپے خرچ کرکے پاکستان واپس آ جاتے ہیں- لاکھوں گھروں میں تین تین گاڑیاں موجود ہیں جبکہ دوسری طرف لاکھوں افراد بیس کلومیٹر پیدل سفر کرتے ہیں تاکہ وہ بسوں کا کرایہ بچا کر اپنے اور اپنے بچّوں کیلئے خوراک کے اخراجات پورے کر سکیں - ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ حکومتی مالیاتی ادارے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے میں قاصر رہے ہیں ان حالات میں اگر شہری بھوک سے مر رہے ہوں تو ریاست کے دفاع پر اربوں روپے کے اخراجات بھی غیرمنطقی ہو جاتے ہیں - پاکستان کے صنعتی اور تجارتی ادارے اپنے منافع میں غیر معمولی اضافہ کرنے کیلئے مزدوروں کی تنخواہیں کم کر رہے ہیں اور مزدوروں کی چھانٹی بھی کی جا رہی ہے جبکہ مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے- ڈاکٹر قیصر بنگالی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک جانب گرینڈ حیات ٹاور اسلام آباد کو لیگل قرار دے دیا کیونکہ اس میں بااثر افراد نے فلیٹ خرید رکھے تھے جب کہ دوسری جانب ہزاروں غریب عوام کے مکانات اور دکانوں کو کوئی متبادل انتظام کیے بغیر بڑی بے دردی اور سنگدلی کے ساتھ گرا دیا گیا -
پاکستان کی معیشت مفلوج اور دیوالیہ ہو چکی ہے حکمران اشرافیہ کو اس کی کوئی فکر نہیں کیونکہ انکے پاس پاسپورٹ موجود ہیں اور وہ جب چاہیں پاکستان کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جاسکتے ہیں ان کو صرف ائیر پورٹ تک محفوظ راستے کی ضرورت ہے- ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ موجودہ حالات میں ایک ہی آپشن باقی بچا ہے کہ امیروں کے پاکستان کیخلاف بغاوت کی جائے اور ان کو عوامی طاقت سے مجبور کیا جائے کہ وہ غریبوں کو ان کا بنیادی حق دینے پر آمادہ ہو جائیں-
وزیراعظم عمران خان قوم کو تسلی دے رہے ہیں اور امید دلارہے ہیں کہ اچھا وقت جلد آنے والا ہے انکی نیت نیک ہے اور ان کی دیانت پر بھی کوئی شک نہیں انکی یہ دونوں خوبیاں عالمی سطح پر پاکستان کیلئے بڑی مفید اور معاون ثابت ہو رہی ہیں البتہ ان کی اہلیت کے بارے میں جائز اور اور قابل تشویش سوالات اٹھائے جا رہے ہیں -ان کو پاکستان کے زمینی حقائق کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا اور اس کی روشنی میں وہ تبدیلیاں لانی پڑیں گی جن کے بغیر ریاست کا نظم و نسق کامیابی کے ساتھ چلانا ممکن نہیں - آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی وجہ سے سے مہنگائی اور افراط زر میں اذیت ناک اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے اشیائے ضروریہ عوام کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں- وزیراعظم عمران خان نے پارلیمانی اجلاس میں سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو اپنا دست راست قرار دیا ہے ان کو اگر وفاقی کابینہ میں میں سینئر وزیر بنا دیا جائے تو وہ وزیر اعظم کا بوجھ شیئر کر سکتے ہیں- وفاقی وزارتوں کی مانیٹرنگ کر سکتے ہیں ان کو مفید مشورے دے سکتے ہیں اور وفاقی کابینہ کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے- ان کی نامزدگی سے تحریک انصاف کے کارکنوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی جن کا خیال ہے کہ وفاقی کابینہ پر ایسے افراد حاوی ہو چکے ہیں جن کا تحریک انصاف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے-
روز بروز بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے عوام میں بے چینی اور تشویش کو دیکھتے ہوئے پی پی پی پی مسلم لیگ نون اور جمعیت علماء اسلام (ف) گروپ نے رمضان کے بعد حکومت مخالف تحریک چلانے کیلئے منصوبہ بندی کر رکھی ہے جو عمران خان کیلئے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے- پاکستان کا نیا قومی بجٹ اگر عوام دوست نہ ہوا اور اس بجٹ کے بعد عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا تو حکومت مخالف تحریک زور پکڑ سکتی ہے- تحریک انصاف کے لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ وہ آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے سنجیدگی کے ساتھ تیاری کریں اور عوام کو ریلیف دیں تاکہ وہ اپوزیشن کی کال پر سڑکوں پر آنے کیلئے آمادہ نہ ہوں- وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان تحریک انصاف کے کارکنوں سے کٹ چکے ہیں -کارکنوں اور قیادت کے درمیان خلیج پیدا ہو چکی ہے جس سے تحریک انصاف کے اندر بھی مایوسی اور بے چینی پیدا ہو رہی ہے اسے ختم کرنے کیلئے لازمی ہے کہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عوامی رابطہ مہم شروع کریں تاکہ وہ اپنے کارکنوں کو موجودہ حالات کے سلسلے میں ہے اعتماد میں لے سکیں اور تحریک انصاف کے کارکن عوامی سطح پر اپوزیشن جماعتوں کی ممکنہ تحریک کا کا مقابلہ کر سکیں-