جونہی کوئی نئی روح دنیا میں آتی ہے، اس کی تعلیم و تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے ، ماں گود میں ہی اپنے بچے کو اشاروں سے بہت کچھ سکھانا شروع کردیتی ہے، یہ عمل صرف انسانی نسل تک ہی محدود نہیں ، جانور بھی اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی آزمودہ دائو پیچ سکھانا شروع کردیتے ہیں ۔ اس عمل کے پیچھے کارفرما خواہش یہ ہوتی ہے کہ تربیت کا جو تریاق نئی نسل میں منتقل کیا جارہا ہے وہ اسے کندن بنا دے اور وہ آنے والے زندگی کی کٹھنائیو ںکا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجائے ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ انفرادی طور پر تو ہرکوئی اپنے بچوں کی تربیت کو فرض اولین تصور کرتا اور تن من دھن لٹا دیتا ہے حالانکہ اس بچے نے آگے جاکر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے لیکن آج تک نہیں سنا کہ کسی نے سیاستدانوں کی تربیت کی ہو جو پورے ملک اور کروڑوں لوگوں کے مستقبل کے امین ہوتے ہیں۔ پاکستان آج جن حالات سے گزر رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ وزراء اپنے مخالفین کا مذاق اڑاتے پائے جاتے ہیں، پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کو نجانے کن کن ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اس طرح کے رویے ناصرف سیاستدانوں کی رسوائی کا سبب بنتے ہیں بلکہ ملک کی نوآموز سیاست پر عوامی اعتماد کو بھی ڈگمگاتی ہے۔جب سنیئر قیادت اس طرح کے حربوں کو اختیار کرے تو نچلی صفیں بھی اس کو اپنا لیتی ہیں، تعمیری تنقید اور ہم آہنگی کی عدم موجودگی اس طرح کے رویوں کا ایک پہلو ہے جو کہ حالیہ سیاسی بحران کے نتیجے میں سامنے آیا ہے، سیاستدانوں کے اندر دانائی کی کمی کا معاملہ صرف لفظوں کے انتخاب تک ہی محدود نہیں، انتظامی اور ناقص طریقہ کار میں بھی وہ پیچھے نہیں۔حکومتی مشینری اور پالیسی سازی کے عمل میں شامل سیاستدانوں کا احمقانہ پن اکثر ان کے ساتھ کام کرنے والے سول سرونٹ میں مذاق کا موضوع بنتا ہے، قوانین و ضوابط سے عدم واقفیت سیاستدانوں کی بڑی اکثریت کو بیوروکریٹس کے مشوروں کا محتاج بنا دیتا ہے۔اس تمام صورتحال کی وجہ فقط یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا انفراسٹرکچر موجود نہیں جو انہیں تربیت اور زیادہ ذمہ دارانہ حکومتی پوزیشنز کے لیے تیار کرسکے، اس کے برعکس ایسے افرا دجنھیں حکومت سول سرونٹس کے طور پر بھرتی کرتی ہے وہ پہلے دن سے اپنے کیرئیر کے آخر تک مسلسل ایک جامع تربیتی عمل سے گزرتے ہیں، ایک سول سرونٹ کو اپنی ملازمت میں ترقی کے لیے متعدد تربیتی کورسز کامیابی سے مکمل کرنا پڑتے ہیں، اگرچہ ان تربیتی پروگرامز کی افادیت پر سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں اور ان میں بہتری کے مواقعے موجود ہیں مگر پھر بھی یہ کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہیں۔اب سیاستدانوں کی اہم پوزیشنز کے سفر کا تصور کریں، عام انتخابات میں کسی اسمبلی کی نشست جیتنے کے بعد ایک امیدوار ہفتوں میں پارلیمنٹ میں پہنچ جاتا ہے جہاں اسے کابینہ میں کوئی پوزیشن دے دی جاتی ہے جبکہ کسی مناسب تیاری کے بغیرہ وہ اس پورٹ فولیو کو سنبھالتا ہے جس کی ذمہ داری اس کے کندھے پر ڈالی جاتی ہے۔اس صورت میں ہم کیسے اس سے توقع کرسکتے ہیں کہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔پاکستان میں نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی سول سرونٹس کو تربیت دینے کی ذمہ داری پوری کرتا ہے، جبکہ سیاستدان بھی پبلک سرونٹ ہوتے ہیں اور ان کی تربیت کو اسی دائرے میں لایا جانا چاہئے، تاہم سول سرونٹس کے معاملے کے برعکس سیاستدانوں کی تربیت کے خرچے کا بوجھ ٹیکس گزاروں پر نہیں ڈالا جانا چاہئے۔اس تربیت کے مقاصد امیدواروں کے حکومت کے ساتھ کرنے والے سول سرونٹس جیسے ہی ہونے چاہئے اور اس میں مختلف تصور جیسے ریاستی رازوں، سفارتی تعلقات، پروٹوکول‘ مذہبی برداشت اور میڈیا کے سامنا کرنا وغیرہ کی اہمیت پر زور دیا جائے، اس سے ان کے اندر اس حقیقت کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی کہ صرف حلقے کی سیاست اور انتخابات ہی جمہوریت نہیں، درحقیقت ایسا لچکدار تختہ ہے جس میں عقیدے کے ٹوکرے کو لے جاتے ہیں۔اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کو چلانے کے لیے اہلیت کے حوالے سے تربیتی کورس کے حوالے سے قانون سازی کی جائے اور یہ تمام سیاستدانوں کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ صرف کامیاب ہوکر اسمبلیوں میں آنے والے سیاستدانوں کے لیے۔ اس سے طویل المیعاد بااخلاق سیاسی کلچر متعارف کرایا جاسکے گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38