ہفتہ‘ 12 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 18؍مئی 2019ء
دوسروںکو جھوٹا کہنے والے لاپتہ اپوزیشن لیڈر بتائیں کب آئیں گے۔ فردوس اعوان
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس اعوان کی ہم منصب نے کیاجواب دیا۔ معلوم نہیں لیکن ہم بصد ادب گزارش کرینگے کہ اگر اتنی جلدی تھی تو اُنہیں جانے کیوں دیاتھا۔ پنجاب کاکلچر تو یہ ہے کہ ’’جانا اپنی مرضی سے ہوتا ہے، اذن رخصت اگلوں (میزبانوں) کی مرضی پرمنحصر ہے‘‘ جب وہ کہیں گے آ ہی جائینگے۔ یہاں اُن کے بغیر کون سا نظام زندگی معطل ہے۔ ان دنوں سیاست کی ساری رونق الزام تراشی اور فقرے بازی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ میڈیا کی پھرتی اور ’’فرض شناسی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ادھر ایک فریق کے مُنہ سے پھلجھڑی جھڑتی ہے۔ میڈیا اگلے لمحے ہی اسے دوسرے فریق کے کان میں جا ڈالتا ہے اور پھر منتظر رہتا ہے کہ دیکھیں جواب میں کیا صادر ہوتا ہے۔ ایک طرف ’’شرلی‘‘ چھوٹتی ہے تو چند لمحوں بعد مخالف صفوں سے ’’میزائل‘‘ سا لپکتا ہے۔ فقرے بازی جمہوری سیاست کی سنجیدگی میں ’’فکاہیہ کالم‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیچڑ اُچھالنا، الزام تراشی اور دوسروں کے حسب و نسب پر ہاتھ ڈالنا، اہل سیاست کا کبھی وطیرہ نہیں رہا ، یہ صنف حال ہی میں نصاب سیاست میں شامل ہوئی ہے۔ اگر کوئی ہمت کرے اور اخبارات سے ایک دوسرے کے بارے سیاسی بیان جمع کر کے دیکھ لے۔ ایک دوسرے کو جھوٹا کہنا اتنا عام ہوگیا ہے کہ شاید ہی کوئی اس سے بچا ہو۔ لطف یہ ہے کہ بیشتر سیاستدان اور بالخصوص ارکان پارلیمنٹ الیکشن کمشن کے سرٹیفکیٹ صادق اورامین حاصل ہونے کے بعد، عوامی ایوانوں کی زینت بنے ہیں۔ الیکشن کمشن ان کی سیاست میں بے شک مداخلت نہ کرے لیکن ذرا یہ بھی دیکھ لے کہ اُس نے جن لوگوں کے صادق و امین ہونے پر مہر ثبت کی تھی، وہ اب اس مہر کی کس قدر مٹی پلید کررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
شاہ محمود کی موٹر سائیکل پر عوامی رابطہ مہم، مختلف علاقوں کا دورہ، مسائل معلوم کیے
بڑی بات ہے کہ قومی سطح کے سیاستدان نے آرام دہ کار سے اُترکر موٹر سائیکل کی سواری کی۔ تصویرمیں دکھایا گیا ہے کہ موٹر سائیکل کوئی اور چلا رہا ہے اور آپ نے اُس کا کندھا بڑے زور سے پکڑ رکھا ہے۔اگرچہ خبررساں ایجنسی نے اُن مسائل کی فہرست نہیں جاری کی جو اُنہوں نے معلوم کیے۔ بہرحال یقین ہے کہ کچھ تو کیا ہو گا۔ ان سے پہلے پنجاب کے ایک وزیر اعلیٰ گزرے ہیں۔ وہ جب مسائل معلوم کرنے نکلتے تھے ، مسائل کم حل کرتے دو چار افسروں کی ’’اُتار کر ہاتھ میں ضرور پکڑا‘‘ آتے تھے۔ آخری آخری دنوں میں انکے مسائل معلوم کرنے کی خو میں بڑی شدت آ گئی تھی ، نیند قدرتاً اُن سے سلب کر لی گئی تھی، انتقاماً دوسروں کو بھی نہیں سونے دیتے تھے، نماز فجر سے فارغ ہو کر رجسٹر حاضری لیکر بیٹھ جاتے تھے۔ خیر سابق خادم اعلیٰ کا ذکرِ خیر تو برسبیل تذکرہ آ گیا بات ہو رہی تھی شاہ محمود قریشی کی۔ آپ ملتان کی سب سے بھاری گدی کے سجادہ نشین ہیں۔ اُنہیں موٹر سائیکل پر بیٹھا اور وہ بھی کسی کی پشت پیچھے دیکھ کر مریدان باصفا پر قیامت گزر گئی ہو گی۔ آپ پکی سڑکوں والے علاقوں میں ہی موٹر سائیکل دوڑاتے رہے ہوں گے، جہاں گردو غبار نہیں اُڑتا۔ لیکن پکے سے اُتر کر ذرا کچے میں آتے تو مسائل کا سواد کچھ اور ہوتا اور اگر کسی دور اُفتادہ گائوں کی طرف نکل جاتے تو غریب پروری کی دھوم مچ جاتی۔
٭٭٭٭
نوجوت سدھو نے مودی کو ’’کرپشن کروں گا نہ کرنے دوں گا‘‘ پر مناظرے کا چیلنج دے دیا
بھارتی اپوزیشن جماعت کانگرس کے رہنما نوجوت سنگھ سدھو نے وزیراعظم نریندر مودی کو چیلنج کیا ہے کہ وہ ان کے دعوے ’’نہ کھائوں گا نہ کھانے دوں گا‘‘ پر بھارت میں کسی بھی جگہ مناظرہ کر سکتے ہیں۔ سدھو مناظرے میں یہ ثابت کریں گے، مودی جی نے رافیل طیاروں کے سودے میں پیسے لیے ہیں یا نہیں۔ یعنی کمشن کھائی ہے یا نہیں۔ بھارتی وزیراعظم پانچ سال پہلے 2014ء کے انتخابات میں ’’مودی گنگا کا بیٹا‘‘ کا نعرہ لگا کر انتہا پسند ہندوئوں کے ووٹوں کے بل پر اقتدار میں آئے تھے۔ ہم دور بیٹھے فریقین کے باب میں کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا، البتہ مودی سے تھوڑی سے ہمدردی اس لیے ہے کہ ہمارے وزیر اعظم آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اگر مودی جیت گئے تو شاید مسئلہ کشمیر بھی حل ہو جائے۔ جس طرح ایڈیٹر حضرات مشکل تحریروں کے سائیڈ ایفیکٹ سے بچنے کیلئے لکھ دیتے ہیں ’’ادارے کا کالم نگار کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں‘‘ ہماری اس تحریر کو بھی اسی زمرے میں سمجھئے ! لہٰذا ہمدردی کی بنیاد پر مودی جی کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ مناظرے کا چیلنج قبول کرنے سے احتراز کیجئے، سدھو کو لالو پرشاد یادیو، یا راہول نہ سمجھئے گا۔ سدھو جاٹ ہے اور جٹ جپھا بڑا خوفناک ہوتا ہے۔ اگر اُنکے ہتھے چڑھ گئے تو پھر ہفتوں ، پسلیوں کو ’’ٹکوریں‘‘ کرنا پڑ جائیں گی ، اگر ادھر رافیل طیارے ہیں تو اُدھر بھی باسفور توپوں کی گھن گرج سے کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔
٭٭٭٭٭
روزہ کیوں رکھا؟ قومی ائرلائن کے کپتان نے ائر ہوسٹس کو نیچے اُتار دیا
اسلام آباد سے برمنگھم جانے والی پرواز 791 میں فضائی میزبان کو محض اس لیے آف لوڈ کردیا گیا کہ اس نے روزہ رکھا تھا۔ یقیناً ایسے لوگوں کو پرواز ہینڈل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو نشے کی حالت میں ہوں یا جن سے کسی ایسے فعل کے صدور کا امکان ہو، جس سے میزبانوں کی خاطر خدمت میں خلل واقع ہوتا ہو۔ جہاں تک مسلم ممالک کی فضائی کمپنیوں کا تعلق ہے ان کا مسلم سٹاف اکثر روزے سے ہوتا ہے۔ اس میں ائر ہوسٹسز بھی شامل ہوتی ہیں اور پائلٹ بھی۔ ایسے اسفار میں روزے کی رخصت ہوتی ہے جو دشوار گزار اور وبال جان ہوں لیکن آج کل تو ائر پورٹ مکمل ائرکنڈیشنڈ ہوتے ہیں۔ طیاروں میں اس قدر کولنگ ہوتی ہے کہ بعض اوقات خود سے کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایئرہوسٹس کا روزہ فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں تھی تو پائلٹ غیر انسانی اور ناپسندیدہ حرکت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ روزہ انسان کو فرض شناسی کا شعور دیتا ہے، ہمارے اردگرد ایسے بیشمار لوگ ہیں جن کی رمضان میں کارکردگی ہمیشہ سے بہتر ہو جاتی ہے۔ دراصل ایسے واقعات صرف اس لیے پیش آتے ہیں کہ ہم روزے کی روح سے واقف نہیں۔ روزہ نفس کشی کے ساتھ ساتھ غصہ اور طیش پر قابو پانے طبیعت اور عادات کی خامیوں کو دور کرنے اورنیک خصلت (متقی) بنانے کیلئے فرض کئے گئے ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ اس سے حقیقی ثمرات کم ہی حاصل کئے جا رہے ہیں۔ اسکی ایک افسوسناک مثال گزشتہ روز پاکپتن کے نواحی گائوں 71/D میں دیکھنے میں آئی ، جہاں ایک شخص نے سحری کے اوقات میں گھر میں سوئی 16 سالہ بیٹی کو جگایا۔ انکار پر فائرنگ کر کے قتل کردیا۔ یوں جو کام اُس نے ثواب سمجھتے ہوئے کیا وہ اس کیلئے دائمی جہنم کا باعث بن گیا جو ان بچوں کو سحری کے وقت جگانا آسان نہیں۔
٭٭٭٭٭