میں آج زکوٰۃ کے حوالے سے لکھنا چاہتا تھا۔ اخبارات میں ہر طرف نوازشریف چھائے ہوئے ہیں کل بھی اخبارات میں ایک یہی خبر مختلف انداز میں بار بار سامنے آتی رہی بلکہ بہت دوستوں نے کالم بھی اسی موضوع پر لکھے۔
میری گزارش ہے کہ اب یہ بات ختم ہو جانی چاہئے۔ بھارت بھی پاکستان میں اپنے بندے بھجوانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ کراچی اور صوبہ بلوچستان کے معاملے میں جو صورتحال ہے اس میں بھارت کی جارحانہ ہٹ دھرمی جاری ہے، اس سلسلے میں بھارت کے لوگوں کے خیالات بہت واضح ہیں وہ اس طرح کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ایک بھارتی سیاستدان نے بیرونی مداخلت کا خطرہ محسوس کیا۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ مداخلت کا پہلا شکار کون ہوگا۔ بھارت یا پاکستان ؟
مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوانے میں بھارت کے کردار کی وضاحت کی اور اپنی کامیابی کا ڈھونڈورہ پیٹا۔ اب ایک سیاستدان کے بیان کو بہانہ بنا کے جس طرح منفی پروپیگنڈا کیا گیا اس سے تکلیف بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی۔ مگر اس کے ساتھ بنگلہ دیش کے ایک مسلمان ملک بننے کی باتیں انہیں بہت پریشان کرتی ہیں۔ تب مکتی باہنی کے عسکری شعبے میں بھارتی فوجیوں کی موجودگی کے حوالے سے پوری دنیا جانتی ہے ۔
میں جلدی کرنے کے خلاف نہیں مگر جلد بازی کا بہرحال مخالف ہوں۔ وہ بات جو اکثر لوگ نہیں جانتے تھے مگر بے چارے پرویز رشید کو فوری طور پر کابینہ سے نکال دیا گیا۔ لوگ حیران پریشان تھے کہ پرویز رشید کو کیوں نکالا گیا ہے اور خواجہ آصف کو نہیں نکالا گیا۔ لوگوں نے حکومت کے اس اقدام کو پسند نہیں کیا۔ اب نوازشریف نے بھی اس پر اپنی غلطی کا سیاسی اعتراف کیا ہے مگر وہ پہلے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لیڈر علیم خان نے کہا کہ نوازشریف خود کش مشن پر نکل پڑے ہیں۔ خاص طور پر جب مریم نواز گاڑی میں بیٹھ رہی تھیں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے برملا کہا کہ یہ زیادتی تھی اور یہ سزا ٹھیک نہ تھی۔ نوازشریف نے کہا کہ پرویز رشید کے ساتھ کسی اور آدمی کو بھی نکالنا چاہئے تھا۔
اس سلسلے میں فیصلہ نہ کر سکنے کے خدشے میں مبتلا ایک دوست سیاستدان جاوید ہاشمی نے عجب بات کی۔ نوازشریف پر انگلیاں اٹھانے والے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ تین بار وزیراعظم بننے والے کی حب الوطنی کو چیلنج کرنا ناقابل معافی جرم ہے۔ جاوید ہاشمی ن لیگ اور نوازشریف کی محبت سے فارغ نہیں ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہم اکٹھے تھے ہمیں ہاشمی اچھا لگتا ہے ۔ کاش وہ ن لیگ نہ چھوڑتے ۔ اب وہ ن لیگ میں پھر شامل ہوئے تو کیسا ہوگا۔
بہتر تھا کہ وہ کلثوم نواز اور مریم نواز کے اصرار پر کوئی فیصلہ کرتے ن لیگ چھوڑنا کوئی فیصلہ نہ تھا۔ وہ ایسا کردارادا کرتے کہ وہ لوگ پارٹی چھوڑ دیتے جنہوں نے جاوید ہاشمی کیلئے صورتحال ناقابل برداشت بنا ڈالی تھی۔ آخر چودھری نثار بھی ابھی تک ن لیگ میں ہیں اور کوئی بھی انہیں ن لیگ سے نکالنے کیلئے کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ایک صحافی نے یہ سوال نوازشریف سے کر دیا کہ کیا شہبازشریف آپ کے ساتھ ہیں؟ نوازشریف خاموش رہے ۔ مریم نواز نے جواب دیا۔ اصل میں کوئی اختلاف یا رنجش صرف یہی ہے کہ نوازشریف اپنے بعد مریم نواز کو اپنا جانشین بنانا چاہتے ہیں مگر اب صورتحال ساز گار نہیں ہے۔
چودھری نثار کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے وہ بہادر آدمی ہیں مگر کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ کیا یہ بھی پاکستانی سیاست ہے ۔ نوازشریف کو اس نئی پریشانی سے کسی نہ کسی طرح بچا سکتے ہیں ان کا مخالف بھی ان کے سیاسی کردار پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بظاہر مطمئن نظر آتے ہیں۔ انہوں نے رسمی طور پر بھی بھارت اور بھارتی میڈیا کیلئے مذمت کا بیان بھی نہیں دیا۔ اور انہیں یاد ہے کہ 31مئی 2018ء تک وزیراعظم رہیں گے ہم نوازشریف سے ناراض ہوتے ہیں اپنے وزیراعظم کیلئے ردعمل کا اظہار کریں۔ شاہد خاقان عباسی اگر فوری طور پر مستعفی ہو جائیں تو قوم کے دل میں روشنی کی لہر دوڑ جائے گی۔ جاوید ہاشمی نے یہ بھی کہا جبکہ اس بات کا موقعہ نہ تھا۔ اشرافیہ اب چیئرمین سینٹ سنجرانی جیسا وزیراعظم لائے گی۔
ذوالفقار چیمہ نے نوازشریف کیلئے درد مندانہ بات کی ہے لیکن یہ جملہ بھی کہا کہ نوازشریف کو ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی ۔ چیمہ صاحب کا موقف یہ بھی ہے کہ نوازشریف کا یہ جملہ ریاست پاکستان کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اس لئے اب اس معاملے کو ختم کردینا چاہئے۔ اس کے بار بار تذکرے سے دل خراب ہوتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024