”وردی میں بھیک“
تنخواہ سے محروم بھارتی پولیس اہلکار نے گھر کا خرچ چلانے کے لیے وردی میں بھیک مانگنے کی اجازت طلب کر لی۔بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے تعلق رکھنے والے پولیس کانسٹیبل دنیشور اہیر راﺅنے پولیس کمشنر اور وزیراعلیٰ کو خط لکھا ہے۔بھارتی حکومت دنیا بھر میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے لیکن اس کے اپنے گھر میں کیا حالت ہے اس کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں ،بھیک مانگنا ویسے ہی درست نہیں لیکن اگر کوئی ملازم وردی میں بھیک مانگنے کی اجازت طلب کرے تو کتنا عجیب ہو گا ۔ریٹائرمنٹ کے بعد نہ توانھیں پنشن ملتی ہے اور نہ ہی میڈیکل کی سہولتیں ملتی ہیں اس سے قبل بھارت کے بارڈر سیکیورٹی فورس کے اہلکارکی اپنے ادارے کی زبوں حالی کا پردہ فاش کرنے کی ویڈیوبھی سوشل میڈیا پر زیر بحث رہی تھی کہ ایک پولیس اہلکار نے بھی مودی سرکار کا بھانڈا پھوڑدیا۔جبکہ ایک اور سرکاری ملازم سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی پی آر ایف) کے کانسٹبل جیت سنگھ کی جانب سے سوشل میڈیا پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے نام جاری ویڈیو پیغام میں کہا گیا کہ ہم سی آر پی ایف والے لوک سبھا، راجیہ سبھا اور پنچایت کے چناو¿ سمیت ہر قسم کی ڈیوٹیاں سر انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم وی آئی پی، وی وی آئی پی سیکیورٹی، مندر، مسجد، چرچ، گوردوارا سمیت ہر جگہ پر بھی ڈیوٹیاں سر انجام دیتے ہیں لیکن اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی بھارتی آرمی اور سی آر پی کی سہولیات میں بہت زمین اور آسمان کا فرق ہے۔آخران کے بھی بچے ہیں لیکن ان کے لیے ملک میں ناجانے کتنے اسکول اور کالجز ہیں جن کے ٹیچرز کو 50 سے 60 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے جب کہ یہ خوشی کے تمام تہوار اپنے گھر والوں کے ساتھ مناتے ہیں لیکن ہم کبھی چھتیس گڑھ، کبھی جھاڑ کھنڈ اور کبھی مقبوضہ کشمیر کی وادیوں میں پڑے رہتے ہیں۔ نہ وقت پر چھٹی ملتی ہے اور نہ ہی کوئی وظیفہ ملتا ہے، کیا اتنی ڈیوٹیاں کرنے کے باوجود بھی اس کے حقدار نہیں ہیں، آرمی کو پنشن ملتی ہے لیکن انکی جو پنشن تھی وہ بھی بند کر دی گئی ہے، 20 سال بعد وہ نوکری سے ریٹائر ہوں گے تو نہ انھیں سابقہ فوجیوں کا کوٹہ ملتا ہے اور نہ ہی میڈیکل کی سہولیات ملتی ہیں۔ یہ ہے مودی کا ترقی یافتہ بھارت۔لیکن اس آواز کو دبانے کے لیے مودی سرکار نے سپاہی کو ہی غائب کروا دیا ۔اس نے درست نشاندہی کی تھی ۔اناج کے اسٹور بھرے ہوئے ہیں لیکن اعلیٰ افسران سب مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں۔اس نے ایک اور راز سے بھی پردہ چاک کیا تھاکہ بھارتی آرمی چیف پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی بھونڈی باتیں کرنے سے نہیں تھک رہے لیکن ان کی اپنی فوج کی حالت اتنی پتلی ہے کہ گھر کے بھیدی نے ہی ان کی لنکا ڈھاتے ہوئے تمام داستان سنادی جس میں اس کا کہنا تھا کہ ہمیں ہلدی اور نمک کی دال ملتی ہے اور کئی مرتبہ تو بھوکے پیٹ ہی سونا پڑتا ہے،اس کے باوجود ششماسوراج کس منہ سے کہتی ہیں کہ ان کی فوج بہت اچھی ہے ۔
”نوجوان اصل دفاعی طاقت “
پاکستان میں” ٹیلنٹ “کی کمی نہیں اور ہماری نوجوان نسل ہی ہماری اصل” دفاعی “صلاحیت ہے۔ نوجوان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جدید ترین عالمی معیارات کے مطابق مہارت حاصل کرکے آگے بڑھ سکتے ہیں ۔کیونکہ انسانی زندگی مختلف ادوار کا امتزاج ہے جس میں اتار چڑھاو¿ کے ساتھ انسان آگے کی طرف سفر کرتا ہے مگر تمام انسانی زندگی میں جوانی وہ عرصہ ہو تا ہے جب انسان قدرت کی تمام نعمتوں سے ”بھر پور“ استفادہ کر سکتاہے مگر موجودہ بحران زدہ گلے سڑے سماجی ڈھانچے میں جوانی کا عہد اب کمزوریوں، ناانصافیوں، ظلم اور زیادتیوں کا عہد بن چکا ہے۔جب وہ والدین کی طرف سے بندھی ہوئی امیدوں اور خوابوں کو اس بازار میں سر عام رسوا ءہوتے دیکھتا ہے توہیجان انگیز انداز میں اپنے اندر توڑ پھوڑ محسوس کرتے ہوئے جرائم یا منشیات میں پناہ ڈھونڈنے لگ جاتا ہے۔ ہمیں اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور نوجوان نسل کو آگے بڑھنے کا موقع دینا چاہیے ۔ لیکن اس سرمایہ دارانہ نظام کی غلاظتوں کو بروکار لاتے ہوئے یہی انسان نما خونخوار بھیڑیے دہشت گردی اور منشیات جیسی منافع بخش صنعتوں کے ایندھن کے طور پر ان مایوس نوجوانوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے شرح منافع میں بتدریج اضافہ کرتے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب سرمایہ دارانہ نظام کے لئے بیروزگاروں کی فوج رکھنا ضرورت تھی پر اب مستقل بیروزگاری نظر آرہی ہے جو کہ نظام کا نامیاتی بحران ظاہر کر تی ہے۔ موجودہ نسل عشروں میں واحد نسل ہے جو اپنے ابا اجدا د سے غریب ہے جس کو اپنی روزمرہ ضروریات کے لئے بھی والدین کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کا مستقبل اس کے نوجوان ہوتے ہیں اور ان نوجوانوں کی حالت زار سے بخوبی معاشرے کے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عالمی طور پر سرمایہ دارانہ بحران میں نوجوانوں کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہو رہی ہے جس سماج میں نوجوان نسل کے سامنے کوئی راستہ نہ ہو وہ مایوسی کی دلدل میں گری جا رہی ہو تو اس کا مستقبل بھی خطرے میں ہو تا ہے جو کہ کسی نظام کے تابوت میںآخری ”کیل “ثابت ہو سکتا ہے۔پاکستان جس کی آدھی سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے یہ اب چلتی پھرتی لاشوں کا ”عجب کدہ“ بن چکا ہے۔ خوف اور ڈر کے ماحول میں پرورش پانے والی نوجوان نسل اپنے آئے روز کے بگڑتے سماجی، سیاسی اور ثقافتی ڈھانچوں کے اثرات کے تابع عملی طور پر بیگانگی کی تمام حدو ں کو پھلانگتے ہوئے عجب تماشہ پیش کر رہی ہے ۔لیکن کوئی بھی اس کا حل تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔دوسری طرف اگر ہم بر سر روزگار نوجوانوں کی حالت کو دیکھیں تو اس وقت یہ شاید سب سے زیادہ” استحصال زدہ نسل“ ہے۔ بیروزگاروں کی ایک بڑی فوج کی موجودگی میں چند برسر روزگار نوجوانوں کی حالت زار بھی کم خراب نہیں۔ معمولی اجرتوں پر زائد اوقات کار پر کام کرنا معمول بن چکا ہے لیکن دوسری طرف محنت کشوں کی کارکردگی اور ہنر میں اضافہ بھی تاریخی طور پر ”بلند پیمانے “پر ہے۔ اس پیداواری قوت میں بلندی او ر تنخواہوں میں پستی سے سرمایہ داروں کے شرح منافعو ں میں غیر یقینی حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ جس سے ہمارا نوجوان مایوس نظر آتا ہے اور یہ مایوسی ہی تباہی کی جانب لے کر جاتی ہے ۔ جس کی ہمیں حوصلہ شکنی کرنی چاہیے ۔