ترقی کی گاڑی چلتی رہے
صد شکر کہ آخر کار لاہور میں بڑے عرصے سے کھٹائی کا شکار اورنج لائن میٹرو ٹرین نے سفر کا آغاز کر لیا۔ یوں تو اس منصوبے نے کافی دیر پہلے مکمل ہونا تھا مگر کچھ رکاوٹوں کے باعث یہ تاخیر کا شکار ہوتا گیا جس کی وجہ سے اہل لاہور کو خاصی پریشانی اٹھانی پڑی کیوں کہ جگہ جگہ سے کھدائی کے باعث نہ صرف آنے جانے میں دشواری کا سامنا ہوا بلکہ دھول مٹی نے ماحول کو بھی آلودہ کئے رکھا۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جو لاہور کی خوبصورتی میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ڈیرہ گوجراں سے لکشمی چوک تک اس میں آزمائشی سفر کر کے اس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ ان کے ہمراہ متعلقہ افسران اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ یاد رہے اس منصوبے کے لئے چین کی حکومت نے آسان شرائط پر قرض فراہم کیا تھا۔ یہ کام 25 اکتوبر 2015ءکو شروع ہوا اور 16 مئی کو اختتام تک پہنچا۔ یہ عوام دوست منصوبہ ہے جس سے شہریوں کو سستا، تیز رفتار اور باوقار سفر میسر ہو گا۔ وہ ٹریفک کے ہنگاموں سے دور رہیں گے اور اورنج ٹرین کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی بھی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً اڑھائی لاکھ لوگ روزانہ اس میں سفر کریں گے جب کہ کچھ عرصے بعد یہ تعداد پانچ لاکھ تک بڑھا دی جائے گی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے اورنج لائن میٹرو ٹرین کا افتتاح کرتے ہوئے زندہ دلانِ لاہور کو مبارک باد دی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ خدمتِ خلق کے منصوبے جاری رکھیں گے اور اگر خدا نے موقع دیا تو اس کا دائرہ کار پورے ملک تک بڑھا دیں گے۔ انہوں نے اس عوامی منصوبے میں روڑے اٹکانے اور تاخیر کا باعث بننے والے تحریک انصاف کے چیئرمین کو خوب کھری کھری سناتے ہوئے امید ظاہر کی کہ عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور وہ اس کا فیصلہ الیکشن کے دوران کریں گے۔ اہلِ لاہور اس تاخیر کا بدلہ اپنے ووٹ سے لیں گے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ بلاول ہاﺅس اور بنی گالا دونوں ایک ہو گئے ہیں جو دوسروں کو چور چور کہتے تھے اب مل کر منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میں نے بطور خادمِ عوام اپنی پوری کوشش کی کہ اس صوبے کی فلاح کو اپنا مقصدِ حیات بنا کر آگے بڑھوں اور الحمد للہ میں نے اس پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کی لیکن انسان سے غلطی ہو سکتی ہے۔ مجھ سے بھی کوئی غلطی ہوئی ہو تو اس کی معذرت چاہتا ہوں۔ میں نے مختلف منصوبوں میں قوم کے اربوں روپے بچائے ہیں۔ الزام لگانے والوں کو اس بچت کے حوالے سے بھی بات کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے بعد اگر اللہ نے موقع دیا تو بھاٹی گیٹ سے ایئرپورٹ تک بلیو لائن میٹرو ٹرین بنائیں گے۔
یقینا یہ ایک بہت بڑا اور کارآمد منصوبہ ہے جو عام آدمی کو سہولیات فراہم کرے گا اور اس سے ٹریفک کے نظام میں بھی بہتری آئے گی۔ اس وقت لاہور میں گاڑیوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے سڑک پر سفر کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اس لئے کہ ہر فرد اپنی گاڑی میں نکلے گا تو ہماری سڑکیں سفر کے قابل نہیں رہیں گی بلکہ ہر وقت وہاں ٹریفک کا مسئلہ گھمبیر شکل اختیار کئے ہوئے نظر آئے گا۔ ترقی یافتہ ملکوں نے ایسے مسائل پر قابو پانے کے لئے ٹرینوں اور بسوں یعنی پبلک ٹرانسپورٹ کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ لاہور میں میٹرو اور اورنج لائن ٹرین یقینا اس طرف مثبت پیش رفت ثابت ہوں گی۔ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا شروع کریں گے جس سے پٹرول کی بچت ہو گی، ماحول میں آلودگی کم ہو گی اور ٹریفک کے اژدہام سے بھی نجات ملے گی۔ طبقاتی فرق بھی کم ہو گا کیوں کہ عام اور خاص ایک گاڑی میں سفر کریں گے۔ پہلے لوگ میٹرو پر بڑی تنقید کرتے تھے لیکن اب ایک دن میٹرو نہ چلے تو زندگی اجیرن محسوس ہوتی ہے۔ انشاءاللہ اورنج لائن ٹرین سے وابستہ امیدیں سچ ثابت ہوں گی۔ ہماری دعا ہے کہ وطنِ عزیز میں ترقی کا سفر جاری رہے اور ترقی کی ٹرین مسلسل آگے بڑھتی رہے۔ اس وقت ملک مختلف مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ یہ مسائل معاشی سے زیادہ سیاسی اور دفاعی نوعیت کے ہیں۔ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب ایک قوم بن کر آگے بڑھیں۔ دشمنوں کو خود پر ہنسنے کا موقع نہ دیں۔ یقینا وزیر اعلیٰ پنجاب ایک ایسی شخصیت ہیں جو پورے ملک کے عوام کو ایک رسی میں پرونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک نیک نیت رہنما ہیں جو خدمت پر یقین رکھتے ہیں اور پاکستان کی سلامتی اور سالمیت پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے اقتدار کے لئے پاکستان کی مخالف قوتوں کو خوش کرنے کے لئے کوئی بیان نہیں دیا بلکہ اداروں کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔
موجودہ حالات میں انہیں اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے تا کہ لوگوں کے ذہنوں میں جو ابہام ہیں وہ دور ہو سکیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اور خصوصاً پنجاب کے لوگ کسی بھی صورت بھارت کے حوالے سے ملک کو نیچا دکھانے والے کسی فرد کی پذیرائی نہیں کر سکتے۔ پاکستان ہماری شان ہے۔ ہمیں اپنی لڑائی بہن بھائیوں کی طرح لڑنی چاہئے دشمنوں کی طرح نہیں اور نہ ہی اس میں دشمنوں کو فریق بنانا چاہئے۔