اسلام کےخلاف بڑھتے ہوئے خطرات
ایسے نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کیخلاف نفرت میں آہستہ آہستہ شدت آرہی ہے اور یہ عمل مسلسل جاری ہے ۔سب سے پہلے تو ہمارے پڑوس میں پنپنے والی نفرت ہے۔ مسلمانوں نے جو ہندوستان پر تقریباً8سو سال حکومت کی آج ہندو بنیا اس حکمرانی کا بدلہ لینے کیلئے ہر اوچھی حرکت کرنے کو تیار ہے۔ وہ پاکستان کےخلاف تو اپنی مذموم حرکات کر ہی رہا ہے لیکن ساتھ ہی مسلمانوں کی نسل کشی پر بھی عمل پیرا ہے۔بھارت میں وہ مسلمانوں کو ”گاﺅ ماتا“ کے نام پر قتل کررہا ہے اور کشمیر میں فوج کے ذریعے مسلمانوں کی نسل کشی کروارہا ہے۔یہ منافرت اب اس درجے پر پہنچ گئی ہے کہ مسلمانوں کا نام تک برداشت نہیں ہورہا۔موجودہ خبر کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قائد اعظم اور سٹوڈنٹس یونین آفس سے سر سید احمد خان کی تصاویر اتروا دی گئی ہیں۔ حالانکہ سر سید احمد خان اس یونیورسٹی کے بانی ہیں اور جہاں تک قائد اعظم کا تعلق ہے وہ اسکے تا حیات ممبر تھے جو انہیں1938میں پیش کی گئی تھی۔اسوقت تک یہ ادارہ محمڈن کالج تھا۔ اسے یونیورسٹی کا درجہ نہیں ملا تھا۔ 1939میں قائد اعظم نے اپنی جائیداد کا تیسرا حصہ اس ادارے کے نام کیا جو کہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ اسوقت کی تفصیل ہندو مصنفہ شیلا ریڈی نے اپنی کتاب ” مسٹر اینڈ مسز جناح “ میں دی ہے۔ اب تک اس یونیورسٹی میں کل 35شخصیات کو تا حیات ممبر شپ دی گئی ہے جس میں صرف 5مسلمان ہیں۔ ان تمام ممبران کی تصاویر طلباءیونین ہال میں لگی ہیں جس پر اب اعتراض کر کے ہٹا دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ بی بی سی کی ایک خبر کے مطابق ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے ایک سرکردہ راہنما موہن بھگوت نے ”گھر واپسی“ نام سے ایک تحریک شروع کی ہے جسکا مقصد مسلمانوں کو ہندو بنانا ہے ۔اس تنظیم کے مطابق پہلے سب مسلمانوں کے اباﺅ اجداد ہندو تھے جنہیں تلوار کے زور سے مسلمان بنایا گیا۔لہٰذا اب انہیں ہندو بن کر” گھر واپس“ آجانا چاہیے ۔یہ تحریک آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہے۔پچھلے دنوں اتر پردیش کے شہر فیض آباد میں 22مسلمان نوجوانوں کو ہندو مذہب میں داخل کیا گیا اور یہ تقریب ایک مندر میں منعقد کی گئی۔ مسلمانوں سے نفرت اور بھی کئی طریقوں سے جاری ہے مثلاً کچھ ریاستوں میں پڑھائی جانے والی ہندوستان کی تاریخ سے مغل دور کی تاریخ کو خارج کردیا گیا ہے اور ان کی جگہ ہندو حکمرانوں کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔
اسلام کیخلاف دوسری نا زیبا حرکت یہ کی گئی کہ کچھ عرصہ پہلے برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کے متعلق بی بی سی پر ایک خبر نشر ہوئی جس میں یہ ثابت کیا گیا کہ ملکہ کا شجرہ نسب مسلمانوں کے پیغمبر حضور کریم ﷺ سے ملتا ہے۔ معلوم نہیں یہ کہانی کہاں تک درست ہے لیکن اس سے مسلمانوں کو ذہنی تکلیف ضرور ہوئی ہے۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اسوقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کا سب سے بڑا مخالف ہے لیکن وہ اسرائیل، یہودیت اور ہنود کا بہت بڑا شیدائی ہے۔یہ ٹرمپ کی مسلمانوں کیخلاف نفرت تھی کہ اس نے ایران سے2015میں کیا گیا جوہری معاہدہ ختم کر دیا ہے ۔ ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں لگا دی ہیں۔ یہودی اس فیصلے پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں ۔اب اسرائیل کی معرفت ایران پر حملہ کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔اسرائیل کے ذریعے ایران کے دفاعی اثاثے تباہ کئے جائینگے تا کہ آئندہ وہ کہیں بھی لڑنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے۔یہ ہے مسلمانوں کو بے بس کرنے کا طریقہ۔
ویسے تو مسلمانوں کیخلاف پورے یورپ اور امریکہ میں تحریک چل رہی ہے لیکن کچھ ممالک میں یہ کافی شدت اختیار کر چکی ہے ۔3اپریل کو پورے مغرب میں Punish A Muslim Day منایا گیا جو مسلمانوں کےلئے بہت تکلیف دہ ثابت ہوا ۔اب نیا شو شہ فرانس سے شروع ہوا ہے۔ وہاں وہ ایک تبدیل شدہ اسلام متعارف کرانا چاہتے ہیں جسے وہ ”فرانسیسی اسلام“ کا نام دیتے ہیں۔ فرانسیسیوں کے خیال میں مسلمان یہودیوں اور کافروں کےخلاف ہیں۔ مسلمانوں کی مذہبی (قرآنی) تعلیم کے مطابق یہودیوں اور کافروں کو قتل کرنا یا انکی ایذار سانی کرنا عین عبادت ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جس سے فرانسیسی بہت پریشان ہیں ۔پچھلے دنوں ایک67سالہ سارہ حلیمی نامی یہودی عورت کو ایک شخص نے اسی کے فلیٹ میں جان سے مار کر لاش کھڑکی سے نیچے پھینک دی اور جب لاش نیچے پھینکی جا رہی تھی تو مارنے والا ”اللہ اکبر“ کے نعرے لگا رہا تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مسلمان تھا۔اسی طرح” میریلی نال“ نامی یہودی عورت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اسے قتل کیا گیا۔اسے قتل کرنےوالا بھی ”اللہ اکبر“ کے نعرے لگا رہا تھا۔ پچھلے چند سالوں میں گیارہ ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں یہودیوں کو قتل کیا گیا۔بہت سے یہودیوں پر تشدد بھی کیا گیا ۔فرانسیسی حکومت نے اسے ”یہودی نسلی منافرت “ قرار دیا ہے اور یہ نفرت صرف مسلمانوں کی طرف سے کی جارہی ہے۔ 12مئی کو ایک خمزت عظیم نامی چیچن نوجوان نے پانچ آدمیوں کو چاقو مار کر زخمی کردیا ۔ان میں سے ایک ہلاک ہوگیا۔یہ نوجوان بھی زور زور سے ”اللہ اکبر“ کے نعرے لگا رہا تھا ۔شک ہے کہ اسکا تعلق دولتِ اسلامیہ سے ہے اور دولت اسلامیہ اب تک فرانس میں دوسو آدمی مار چکی ہے۔معاشرتی یگانگت اور امن و امان کےلئے ایسی حرکات کو روکنا بہت ضروری ہے۔
فرانسیسی دانشوروں کی بے بنیاد سوچ کے مطابق یہ قرآنی تعلیم ہی ہے جو مسلمانوں کو بگاڑ رہی ہے۔ حال ہی میں300مشہور شخصیات کی طرف قومی اخبار میں ایک ”منشور“ شائع ہوا ہے جس میں قرآن کریم کی تشدد سے متعلقہ آیات کو قدیم اور فرسودہ (نعوذ باللہ) قرار دے کر ان میں مناسب تبدیلی کرنے کی اپیل کی گئی ہے ۔اس منشور پر فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی اور سابق وزیر اعظم مینو ئل وال کے بھی دستخط ہیں۔ اتنی بڑی شخصیات کے دستخطوں سے اس تحریک کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا۔ اسے ”نسلی منافرت“ کا نام دیا جا رہا ہے۔گو حکومت اور میڈیا نے اس منشور کو قبول نہیں کیا لیکن خطرہ ہے کہ کسی مناسب وقت پر یہ تبدیلی ممکن بھی ہو سکتی ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے اس منشور کی شدید مخالفت ہوئی ہے۔ مسلمانوں کا بیان ہے کہ ایسا کرنے کا مقصد فرانس کو اسلام مخالف ملک بنانا ہے۔ ایک مصری مذہبی تنظیم کی طرف سے اس منشور کیخلاف بھی ایک جوابی اپیل شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ منشور کے ذریعے مسلمانوں کو ”نسلی منافرت“ کانشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس قسم کی وقتاًفوقتاًً ”کالز“ نہ صرف خطرناک ہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش ہے ۔فرانس کی مشہور مسجد طارق اوبارو کے امام نے بھی کہا کہ قرآن تو عیسائیوں اور یہودیوں کی خصوصی حفاظت کا حکم دیتا ہے ۔انہیں ہر قسم کی عبادت کی آزادی ہے۔امام صاحب نے مزید فرمایا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ قرآن میں کیا لکھا ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اسکا غلط ترجمہ کیا گیا ہے۔اس قسم کے ترجمے سے غلط قسم کے لوگوں کو جرائم کی عادت پڑ جاتی ہے۔یاد رہے کہ اس قسم کی ایک تحریک کچھ سال پہلے امریکہ میں بھی چلی تھی۔قرآن کریم میں تحریف کی کوشش کی گئی مگر مسلمانوں کی مخالفت کے خوف سے یہ گھٹیا حرکت نہ ہو سکی۔