جمعة المبارک‘ 2 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 18 مئی 2018ء
انتخابی نشانات میں چمچہ اور جوتا بھی شامل ہو گیا
سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونیوالے ، عوام کو پاﺅں کی جوتی سمجھنے والے سیاستدانوں میں سے شاید ہی کسی کو جرا¿ت ہوگی کہ وہ چمچہ یا جوتا بطور انتخابی نشان اپنی جماعت کے لئے الاٹ کرائے حالانکہ یہ دونوں چیزیں ہماری سیاست میں ہی نہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ چمچہ گیری کے بغیر کوئی بڑے سے بڑا سیاسی ذہین وفطین شخص بھی ترقی کے مدارج طے نہیں کر سکتا ۔
اسی کی بدولت اسے اعلیٰ عہدہ الیکشن میں ٹکٹ اور جیتنے کے بعد وزارت ملتی ہے۔ یہ چمچہ گیری کے ہی ثمرات میں جو کسی بھی شخص کو دن دگنی رات چوگنی ترقی کے مراحل پلک جھپکتے طے کرا دیتے ہیں اس طرح جوتے صاف کرنے والے بھی اپنے اس عمل کی بدولت خوب ترقی کرتے اور پھلتے پھولتے دیکھے گئے ہیں یہ تو حاسدین نے چمچہ گیری اور پاپوش گیری کی مذمت میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ بے ہنر لوگ جو کفش برداری اور چمچہ گیری کی خامیاں گنوا رہے ہیں اس فن میں خود طاق نہیں ہوتے۔ اگر یہ کسی قابل ہوتے تو خود بھی ان فنون کی بدولت عیش کرتے۔
٭....٭....٭
ووٹ نہیں دینا مت دو پرویز خٹک اپنے آبائی حلقے کے ناراض کارکنوں سے الجھ پڑے
رسالپور تا جہانگیرہ روڈ کے افتتاح کیلئے وزیراعلیٰ خیبر پی کے کو اپنے آبائی حلقے میں آنا خاصا مہنگا پڑ گیا جب پرویز خٹک وہاں پہنچے تو علاقے کے مکینوں نے کالے جھنڈے اٹھا کر اپنے انتخابی وعدے پورے نہ کرنے اور علاقے کے مسائل حل نہ کرنے پر ان کے خلاف نعرے بازی کی جس پر ہمارے پہلوان کا پارہ چڑھ گیا اور وہ تیوریاں چڑھا کر آستیں الٹ کر گربیاں کھول کر مظاہرین پر چڑھ دوڑے۔
عالم طیش میں حواس کہاں بجا رہتے ہیں۔ اسی عالم میں انہوں نے اپنے کارکنوں کو خوب سنائیں اور کہا ووٹ نہیں دینا ہے تو مت دیں۔ شاید خٹک صاحب کو بھی عمران خان کی طرح پوری امید ہے کہ انہیں ووٹ ملیں نہ ملیں الیکشن وہی جیتیں گے اور حکومت بھی وہی بنائیں گے ورنہ کس سیاستدان کی یہ ہمت کہ ووٹروں کا مقابلہ کرے۔ بس یہ سننا تھا کہ ووٹروں کا پارہ ہائی ہو گیا اور انہوں نے پرویز خٹک اور عمران کیخلاف مردہ باد اور گو گو نعرے ہی نہیں لگائے، پی ٹی آئی کے لگے ہوئے پرچم بھی اتار کر جلا دیئے۔ جس پر خٹک صاحب مزید ناراض ہو گئے اور لینڈ کروزر میں بیٹھ کر یہ جاوہ جا۔ سیاستدان تو نرم مزاج ہوتا ہے گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہیں ہوتا۔ کم از کم خٹک صاحب اپنے سابقہ قائد بھٹو مرحوم سے ہی تحمل و برداشت سیکھ لیتے۔
٭....٭....٭
مہاراشٹر میں ہندو انتہا پسندوں نے 2ہزار ٹن پاکستانی چینی ضائع کر دی
اب اس کا سب سے اچھا جواب تو یہ ہے کہ ہم بھی بطور پاکستانی قومی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت سے درآمد شدہ ساڑھیاں، پان، آلو، ٹماٹر، سپاری وغیرہ کو اس طرح سڑکوں پر نکال کر ضائع کریں جس طرح انہوں نے ہماری چینی ضائع کردی ہے۔
یہ چینی پاکستان سے بھارتی سرمایہ کاروں نے چاکلیٹ کے بدلے میں خریدی تھی۔ اتنے میٹھے سودے کے باوجود یہ چینی بھارتی انتہا پسند ہندوﺅں سے برداشت نہیں ہوئی تو ہم کس طرح ٹھنڈے پیٹوں بھارت کی محبت میں مرے جاتے ہیں۔
ہماری باڑہ مارکیٹوں کے سمگل شدہ مال میں بھارت کا حصہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ یوں ہر سال اربوں روپے اس مکر وہ دھندے کی بدولت بھارت منتقل ہو رہے ہیں مگر کسی کو پرواہ نہیں کیونکہ بڑے بڑے صاحبان اس کار بد میں شریک ہیں اور ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال رہا۔ کسٹم والے دونوں ہاتھوں سے مال بنا رہے ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بھارتی مال کی سمگلنگ ان کے علم میں لائے بغیر ہو رہی ہو۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی قومی حمیت کا ایسا ہی مظاہرہ کریں جہاں بھی بھارتی اشیاءکے انبار لگے دیکھیں انہیں ضائع کر دیں تاکہ دکانداروں، تاجروں اور سمگلروں کو عبرت ہو جو حمیت سے بے نیاز دشمن ملک سے مال سمگل کرکے ملکی معیشت کو تباہ کر رہے ہیں۔
٭....٭....٭
کنیچھر جھیل کی سطح خطرناک حد تک گر گئی، کراچی کو پانی کی سپلائی بند ہونے کا خطرہ
آج کل لگتا ہے حالات کراچی والوں کے کچھ زیادہ ہی خلاف جا رہے ہیں۔ ایک تو موسم نے ایسا رنگ بدلا ہے کہ کراچی کے باسیوں کے چھکے چھوٹ گئے ہیں۔ سورج آگ برسا رہا ہے۔ ہوا بند ہے حبس کے مارے سانس بند ہونے لگتی ہے، سائے میں بھی آرام نہیں۔ دن ہو یا رات موسم کے تیور نہیں بدلتے۔
دوسری طرف بجلی کے بحران نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ اب کوئی جائے تو جائے کہاں، نہ گھر میں آرام نہ باہر آرام، بجلی کسی دل جلے محبوب کی طرح روٹھ گئی ہے۔ لوگوں کی تو آنکھیں اس کے انتظار میں پتھرا گئی ہیں۔ اب پانی کا بحران جو پہلے ہی کراچی کا امتیازی نشان بن چکا ہے ایک نئی انگڑائی لے رہا ہے۔
کینچھر جھیل جو کراچی کو پانی کی سپلائی کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ ہے وہاںپانی کی سطح تیزی سے خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے جو خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے اب یہ خطرہ سر اٹھانے لگا ہے کہ کہیں کراچی کو پانی کی سپلائی بند نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہم کراچی کو جدید تھرکہہ کر پکار سکیں گے۔
اس وقت پورے سندھ میں کالا باغ ڈیم کی مخالفت اس لئے ہو رہی ہے کہ اس سے دریائے سندھ میں پانی کی قلت ہو گی۔ حالانکہ دریائے سندھ اس وقت خود ایک جوہڑ یا نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم بنا ہوتا تو پانی کی قلت کے دنوں میں اس میں پانی چھوڑ کر اسے ہم ہنستا کھیلتا بہتا دیکھ سکتے تھے، مگر یہ نہ ہو سکا اور اب سندھ والے کینچھر جھیل کے پانی سے بھی آہستہ آہستہ محروم ہونے لگے ہیں۔