صرف اپنی بات سمجھانے کے لئے مجھے آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ جنرل ضیاء نے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے 1985ء میں قومی اسمبلی کو بحال کیا تھا۔ اس اسمبلی کی حلف برداری کے دن سے میں نے ایوان میں ہوئے واقعات کی بابت اسلام آباد کے پہلے غیر سرکاری روزنامے ’’دی مسلم‘‘ کے لئے View From The Galleryکے عنوان سے ایک کالم لکھنا شروع کیا۔ اسی کالم میں قومی اسمبلی کے ایوان میں ہوئی تقاریر کی محض رپورٹنگ کے بجائے یہ جاننے اور بتانے کی کوشش ہوتی کہ پارلیمانی بحث مباحثے کے پس پردہ اصل کہانی کیا ہے۔ یہ کالم میں کسی نہ کسی صورت آج سے تین سال قبل تک مختلف انگریزی اخبارات میں لکھتا رہا۔ کی نذر ہوجانے کے بعد البتہ یہ کالم باقاعدگی سے لکھنے کی عادت نہ رہی۔ بالآخر تھک کر اسے لکھنا ہی چھوڑ دیا۔
یہ کالم لکھنے کے لئے میں 1985ء سے 2012ء تک قومی اسمبلی کے تقریباََ ہر اجلاس کو پریس گیلری میں کئی گھنٹے بیٹھ کر دیکھتا رہا ہوں۔ اس کالم کی بدولت کئی سیاستدانوں سے ذاتی مراسم بھی بہت یارانہ اور گرم جوش ہوگئے۔ خبریں تلاش کرنے کے لئے زیادہ بھاگ دوڑ کی ضرورت نہیں رہی۔
اس وضاحتی تمہید کے بعد میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ پیر کی شب ٹیلی وژن پر قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھتے ہوئے میں ہکا بکا رہ گیا۔ لال حویلی سے اُٹھے بقراط کی چھتری تلے متحد ہونے کے بعد اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے باہم مل کر ’’نواز شریف ولد محمد شریف حاضر ہو‘‘ والا ماحول بنایا تھا۔ میرے سمیت اس ملک کے اکثر لوگوں کو پورا یقین تھا کہ وزیر اعظم کی تقریر کے بعد خورشید شاہ اور عمران خان اپنی جوابی تقاریر کے ذریعے حکومتی جماعت کو دیوار سے لگادیں گے۔ نواز شریف نے اگر گھبرا کر ایوان سے باہر جانے کی کوشش کی تو اپوزیشن اپنے پھیپھڑوں کی قوت سے انہیں روک دے گی۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کا اہتمام بھی یقینی بنایا جائے گا کہ اپوزیشن رہ نمائوں کی جوابی تقاریر PTVسمیت تمام 24/7چینلز پر براہِ راست دکھائی جائیں۔
وزیر اعظم نے 33منٹ لمبی تقریرکی۔ اس مؤثر اور جامع تقریر میں لیکن اپوزیشن کی جانب سے پوچھے سات سوالات کے واضح جوابات موجود نہیں تھے۔ چند اشارے تھے جنہیں وزیر اعظم نے ایوان کے سامنے رکھ کر یہ وعدہ کیا کہ وہ اپنے ذاتی اور شریف خاندان کے تمام اثاثوں کا تفصیلی حساب کتاب پارلیمان کی بنائی کسی کمیٹی کے سامنے رکھنے کو بالکل تیار ہیں۔ ان کے اس وعدے کے بعد وزیر اعظم پر ’’سوالات سے بھاگنے‘‘ کا الزام لگانا مشکل ہے۔ اگرچہ نواز شریف نے وہی کیا جو ایسے حالات میں کوئی بھی چالاک سیاست دان کیا کرتا ہے۔
وزیر اعظم کی جانب سے برتی ’’چالاکی‘‘ کے بخیے ادھیڑنے کے لئے ہمیں مگر ضرورت تھی ایوان میں موجود اپوزیشن رہ نمائوں کی جانب سے کی گئی جاندار تقاریر کی۔ خورشید شاہ مگر اٹھے تو محض چند فقرے ادا کرنے کے بعد ایوان سے واک آئوٹ کر گئے۔ قائد حزب اختلاف اور ان کے ہمنوائوں کو واک آئوٹ کرتے ہوئے یاد ہی نہ رہا کہ انہوں نے بڑی محنت سے گھیر گھار کر وزیر اعظم کو قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر پانامہ لیکس کے حوالے سے ایک دفاعی تقریر کرنے پر مجبور کیا تھا۔ وزیر اعظم کی اس ضمن میں دکھائی ابتدائی ہچکچاہٹ نے اکثر لوگوں کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کیا کہ مناسب اور ٹھوس جوابات نہ ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم اسمبلی کا سامنا کرنے سے کترارہے ہیں۔ پیر کی شب مگر معاملہ الٹا ہوگیا۔ وزیر اعظم کے بجائے اپوزیشن قومی اسمبلی سے بھاگتی نظر آئی اور میں ابھی تک اپنی تمام تر جستجو اور کاوشوں کے باوجود پیر کے دن ہوئے واک آئوٹ کا جواز نہیں ڈھونڈپایا۔
میری خوش بختی یا بدبختی یہ بھی رہی کہ پیر ہی کی شب ایک بہت ہی مہربان دوست نے اپنے ہاں کھانے پر بلارکھا تھا۔ وہاں دو سیاستدان دوست بھی موجود تھے۔ دونوں کا تعلق مختلف مگر اپوزیشن جماعتوں سے ہے۔ روایتی سیاستدانوں کے مقابلے میں یہ معقول، مہذب اور پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ان کے ساتھ سنجیدہ مکالمہ ہر وقت ممکن ہے۔
یہ معقول اور مہربان سیاست دان میری ہی طرح وزیر اعظم کی تقریر کے بعد اپوزیشن کی جانب سے کئے واک آئوٹ کے بارے میں حیران و پریشان تھے۔ انہیںیہ واک آئوٹ قطعی بے جواز محسوس ہوا اور دوستوں کی محفل میں اس کا دفاع کرنے کو وہ ہرگز تیار نہیں تھے۔
ان دونوں کی بدولت البتہ یہ ضرور دریافت ہوا کہ لال حویلی سے اٹھے بقراطِ عصر کی قیادت میں ان دنوں متحد ہوئی اپوزیشن جماعتیں بنیادی طورپر Hawksکے قبضے میں چلی گئی ہیں۔ لال حویلی سے اٹھے بقراط کے علاوہ کم از کم تین اور قدآور سیاست دانوں کو کسی نہ کسی طور یقین دلادیا گیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں سے 30کے قریب اراکین اسمبلی بغاوت کرنے کو تیار ہیں۔ انہیں ’’اشارہ‘‘ مل چکا ہے۔ اپوزیشن کو اب صرف مسلم لیگ نون کی صفوں میں ابلتی بغاوت کو برسرعام لانے کا ’’ماحول‘‘ بنانا ہے۔ یہ ماحول صرف ایک ہی صورت بن سکتا ہے اور وہ یہ کہ اپوزیشن پانامہ لیکس کے حقائق جاننے کے مطالبے کی بنیاد پر نواز شریف سے استعفیٰ لینے سے کم کسی بات پر راضی نہ ہو۔ وہ یہ تاثر پختہ تر بنادے کہ نواز شریف کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے پانامہ لیکس کے بارے میں ٹھوس حقائق اور ان کی تفصیلات جاننے کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں۔ پیر کی شب جوابی تقاریر کرتے ہوئے اپوزیشن رہ نما وزیر اعظم کی اس پیش کش کو نظرانداز نہیں کرسکتے تھے کہ وہ پارلیمان کے بنائے کسی کمیشن کے روبرو اپنے ذاتی اور خاندان کے اثاثوں کی پوری تفصیلات پیش کرنے کو تیار ہیں۔ یہ پیش کش ایک حوالے سے سانپ کے منہ میں چھچھوندر تھی جسے نہ اُگلا جاسکتا تھا نہ نگلا۔ لہذا ہر ایک نے واک آئوٹ ہی میں عافیت محسوس کی اور میرے جیسے خوش فہم ہکا بکا رہ گئے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024