خان صاحب قوم کا مقدر سنورنے دیں!

مسلم لیگ (ن) کے مرکز اور صوبے میں حکومتیں قائم ہوئے ابھی ایک سال مکمل ہونے جا رہا ہے۔ اس دوران وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ہر ناممکن کو ممکن کیا ہے اور اس کیلئے ہر طرح کے جتن کئے ہیں۔ اس ضمن میں لامحدود کامیابیاں و کامرانیاں بھی سمیٹی ہیں۔ خاص طورپر ملکی معیشت‘ صنعت و حرفت کے تباہ حال انفراسٹرکچر کی تعمیرنو میں اپنی لامحدود توانائیاں صرف کی ہیں جس کے ثمرات نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ خاص طورپر توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے دکھائی جانے والی جوانمردی قابل ستائش و صد افتخار ہے۔ مسلم لیگ (ن) جب برسراقتدار آئی تھی اندھیرے ارض پاک کے باسیوں کا مقدر بنے ہوئے تھے۔ ایسے میں خادم اعلیٰ میاں شہبازشریف اور نڈر بے باک لیڈر میاں محمد نوازشریف نے پے درپے غیرملکی دورے کرکے ترقی یافتہ مملک سے مالی امداد کے بجائے غیرملکی سرمایہ کاروں کو ترغیبات دیکر توانائی کے بحران میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ الحمداللہ میں بڑے دعوے اور وثوق سے کہتا ہوں کہ آج گیارہ مئی 2013ء والی صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے جس کا سہرا دونوں بھائیوں کے سر سجتا ہے۔ واپڈا‘ ریلوے‘ محکمہ سوئی گیس‘ پی آئی اے‘ بلدیات‘ زراعت‘ صنعت و حرفت اور تجارت کے شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ لاہور میں چلائی جانے والی میٹرو بس منصوبہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے خادم اعلیٰ کی منفرد کاوش ہے جس میں روزانہ صرف بیس روپے کرایہ کے عوض ایک لاکھ اسی ہزار مسافر 38 کلومیٹر کا طویل سفر معمولی وقت میں آرام دہ حالت میں طے کرتے ہیں۔ کم سرمایہ اور وقت سے پہلے اس مصوبے کی تکمیل بھی الگ موضوع ہے۔ ازل سے پسماندہ علاقہ جنوبی پنجاب کی شکل و شبہات تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ ہر ضلع میں میڈیکل کالجز قائم ہو چکے ہیں۔ بہاولپور میں سولر انرجی سسٹم کا منصوبہ سستی‘ توانائی مہیا کرنے میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد منصوبہ ہے۔ برطانیہ‘ ایران‘ سعودی عرب‘ خلیجی ممالک ہمارا عظیم ہمسایہ دوست چین‘ جنوبی کوریا اور برادر اسلامی ممالک ترکی کا اس مٹی پر بسنے والوں کیلئے منصوبے شروع کر نے کے عہد خادم اعلیٰ کی کاوشوں کا ثمر ہیں۔ خاکسار خود بھی گزشتہ پاچ سالوں میں بطور پارلیمانی سیکرٹری زراعت خادم اعلیٰ کے ساتھ کام کر چکا ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ حب الوطنی کا جو جذبہ خادم اعلیٰ کی زیست میں شامل ہے وہ کسی دوسرے حکمران کا خاصہ نہیں۔
خادم علیٰ اپنی زندگی میں جنم جنم کے مسائل میں گھری اس قوم کیلئے کچھ کر گزرنے کیلئے لمحہ بہ لمحہ نئے نئے منصوبے شروع کرنے کے متمنی نظرآتے ہیں۔ شدید بیماری کے باوجود لمحہ بھر کیلئے آرام نہ کرنا عوام دوستی کا غماز ہے۔ ان حالات میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی لنترانیاں اور نام نہاد احتجاجی ریلیوں نے راقم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ میں سیاسی طالبعلم ہونے کے ناطے متانت و سنیجدگی سے سوچنے پر مجبو ہوکر رہ گیا ہوں کہ عمران خان اور کینیڈین شہری ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے ملکی آقائوں کی خوشنودی کیلئے اس نہج پر پہنچ جائیں گے۔ جو گھنائونی حرکت دونوں نے گیارہ مئی 2014ء کی ہے حالانکہ نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی پاکستانی عوام کیلئے اٹھائے گئے حکومت کے ہر طرح کے اقدامات کی معترف ہے۔مگر صد افسوس کہ عمران خان اور طاہرالقادری جو ارضِ پاک میں ہونے والی ترقی پر خوش ہونے کے بجائے جلنا شروع ہو گئے ہیں‘ عمران خان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ موصوف ایک سال تک خاموش رہے پھر یکا یک ان کی آنکھ کھلی اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان سمیت ہر کسی کی کردارکشی کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا۔ اپنے ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ تو ان کا فیصلہ ہی الگ ہے۔ وہ تو نہ پاکستانی رہے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کے ہمدرد۔
پیسہ ان کی کمزوری ہے‘ ویسے ان دنوں وہ یہود و ہنود کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکے ہیں۔ راقم کی ہر دو حضرات سے دست بدست التجا ہے کہ خدارا قوم کی قسمت سنوار دیں۔ انہیں مزید اندھیروں میں مت دھکیلیں۔ آپ اپنی باری کا انتظار کریں۔ آپ کی کال پرآپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ قوم اب آپ کی ڈگڈگی پر مزید کان دھرنے کو تیار نہیں۔ اب بھی موقع ہے سنبھل جائیں۔