سردار نامہ…وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogzai@gmail.com
ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
بلوچستان جل رہا ہے اسکی وجہ سے اہل پاکستان پریشان ہیں، فرنیٹئر کی صورت حال سب کے سامنے ہے؟ بلوچستان کے مسائل اے پی سی میں نہیں بتائے جاسکتے ہیں۔صوبے کا مسئلہ حقیقی الیکشن ہیں تاکہ جیوئن نمائندے اقتدار میں آئیں۔ یادش بخیر… ونٹ یونٹ کے بعد بلوچستان کی پہلی اسمبلی بنی تو گورنر بزنجو اور وزیراعلی سردار عطاء اللہ خان مینگل بنے۔ جے یو آئی کی کوالیشن سے بلوچستان میں پہلی حکومت بائی گئی یوں لگ رہا تھا کہ بلوچستان ترقی کی راہ پر چل پڑا ہے لیکن شو مئی قسمت کہ زیادہ عرصہ نہیں گزار تھا کہ وفاقی حکومت نے بلوچستان حکومت پر شب خون مارا اور حکومت ختم کرکے گورنر راج لگادیا۔ فرنٹیئر حکومت جس کی قیادت مولانا مفتی محمود احمد ( والد مولانا فضل الرحمان )کررہے تھے انہوں نے رضا کارانہ طورپر بلوچستان سے یکجہتی کرتے ہوئے اپنی حکومت ختم کر دی۔اس کے بعد جو بھی الیکشن ہوتے رہے ان میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا اثر و نفوذ رہا یوں بتدریج ہر الیکشن میں عوامی رائے کم اور من پسند نتائج زیادہ نمایاں رہے۔ آج تک بلوچستان اسمبلی لگ بھگ ساٹھ فیصد ایسے ممبران صاحبان پر مشتمل ہوتی ہے جو کسی بھی طرح اس معززایوان کے ممبر نہیں ہونے چاہئیں‘ اس طرح بلوچستان کے لوگوں اور سیاسی جماعتوں کو الیکشن سے باہر رکھنے کی کوششیں کی گئی۔ فیڈرل حکومت حقیقی بلوچ قیادت کو پبلک فورم پر لانے سے کتراتی ہے حاصل بزنجو کے الیکشن سینٹ اس کا واضع ثبوت ہے ، یہ ہیں وہ حقائق جن سے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں کمزور ہوتی گئیں آج حالت ہے کہ بیشتر ممبران اسمبلی خود اپنے اختیار اور اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ بلوچستان میں حقیقی الیکشن کرا کر چیوئن لوگوں کو سامنے لائے۔ نواب اکبر بگٹتی کو جس حالت میں موت آئی یا جس طریقے سے انہیں منظر سے ہٹایا گیا کیا اس انداز سے مسائل حل ہوتے ہیں بلوچستان کا مسئلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس مسئلہ حل کرنے کی کوئی تدبیر ہے نہ پروگرام …اگر وزیر اعظم کوبلوچ مسائل حل کرنے کا شوق ہے تو بلوچی سیاسی جماعتوں کی کانفرنس بلائی جائے اور ان کو حل کرانے کی ٹاسک دیا جائے وفاقی سطح پر اے پی سی بلانے سے خوبصورت باتیں تو ہوسکتی ہیں مگر عملاً کوئی پروگرام سامنے نہیں نظر آئے گا۔
٭… سانحہ جعفر ایکسپریس
بلوچستان وہی سرزمین جہاں کی سنگلاخ چٹانوں نے صدیوں سے سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رکھی ہیں، جہاں کی ہواں میں تاریخ کی صدائیں آج بھی گردش کرتی ہیں، جہاں کے ریگزاروں میں وقت کی سلگتی ہوئی سانسیں دفن ہیں۔ یہی وہ خطہ ہے جس کی مٹی میں شہیدوں کا لہو رچ بس چکا ہے، اور یہی وہ دھرتی ہے جس پر ایک بار پھر شب گزیدہ درندوں نے خون کی ہولی کھیلی۔ ٹرین، جو صدیوں کی مسافت کا نشان بنی، جو انسانی تمدن کا گواہ تھی، جس کی پٹڑیاں صدیوں کے قصے سناتی تھیں، آج وحشت و بربریت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ وہ مسافر، جو امیدوں کے چراغ جلائے، زندگی کی نگری میں اپنے خوابوں کے تعاقب میں رواں دواں تھے، آج خون میں نہلادیے گئے۔ ٹرین کا اغوا کوئی معمولی سانحہ نہیں، بلکہ یہ وحشت ناک چیخ ہے، جو صدیوں کے سناٹوں کو چیرتی ہوئی آسمانوں تک جا پہنچی ہے۔ یہ وہ المیہ ہے جس کے آنسو وقت کی آنکھ سے ٹپک رہے ہیں، یہ وہ سسکیاں ہیں جو تاریخ کے سینے میں دفن کی جا رہی ہیں۔ بلوچستان، وہی سرزمین جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہاں چاندنی بھی سازشوں کی گواہ بن کر اترتی ہے، ایک بار پھر درندہ صفت قوتوں کی سازشوں کا شکار ہوگیا۔ یہ خون کی لکیر جو ریل کی پٹڑیوں پر کھنچ گئی ہے!!