ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ انسانی سمکلنگ اور کالا دھندہ مکمل طور پر ختم کر دیں گے ۔ یہ بیان کافی اہم ہے ۔ دُعا ہے کہ شہباز شریف اس پر عمل بھی کر کے دکھائیں ۔ کیونکہ انسانی سمگلنگ اور کالا دھندہ اسی قدر مکروہ افعال ہیں جیسے کسی کا جائز حق مارنا یا پھر کسی کو جیتے جی مار دینا۔ میں ہمیشہ ایک بات کہتی ہوں کہ شہباز شریف اُس وقت سب سے اچھے، با عمل اور بہترین سربراہ تھے جب وہ پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ اُس وقت انہوں نے پنجاب میں اصلاحات کیں۔ ترقیاتی کام کروائے اور لوگوں کو ریلیف دیا تو لوگوں نے بھی انھیں ’’ خادم اعلیٰ‘‘ سمجھا اور خود میں نے انہیں ’’ہر دل عزیز وزیراعلیٰ‘‘ کا خطاب دیا ۔ 1997 ء کی بات ہے جب جناب مجید نظامی صاحب نے مجھے کسی کام سے آفس ُبلایا ۔ کوئی انکوائری انہوں نے میرے سپرد کی تھی۔ اچانک کسی نے انہیں فون کیا اور صدر آصف زرداری کے متعلق بات ہونے لگی۔ میں کرسی پر بیٹھی انتظار کر رہی تھی کہ فون بند ہو تو باقی معاملے پر بات ہو۔ اچانک محترم نظامی صاحب نے ایک انگریزی اخبار نکال کر مجھے دیا اور کہا کہ آپ اس کا ترجمہ کر کے خواتین ایڈیشن میں لگائیں۔ یہ آرٹیکل محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر تھا ۔ مجید نظامی صاحب نے غیر متوقع طور پر مجھ سے سوال کیا کہ آپ کو بے نظیر بھٹو کیسی لگتی ہیں ۔ میں نے اُسی دن بے نظیر بھٹو صاحبہ پر کالم لکھا تھا کہ’’ یا اللہ بے نظیر بھٹو کو نرس بنا ‘‘۔ نظامی صاحب نے استفہامیہ انداز میں میری طرف دیکھا۔ اس کالم کا عنوان میں نے گزشتہ روز نرسوں کے شدید احتجاج پر لکھا تھا جس میں وہ بار بار مطالبہ کر رہی تھیں کہ یا اللہ بے نظیر کو نرس بنا۔ میں نے دلچسپ انداز میں یہ کالم لکھا تھا لیکن جو جواب میں نے محترم مجید نظامی صاحب کودیا۔ اُس جواب پرنظامی صاحب حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ میاں برادران اپنی بہت تابعداری اور فرمانبرداری ،روایتی اسلوب کی وجہ سے نظامی صاحب کے دل کے بہت قریب تھے ۔ میں نے نظامی صاحب سے کہا کہ مجھے بے نظیر بھٹو دل سے پسند ہیں۔ وہ میری آئیڈیل ہیں؟ نظامی صاحب نے حیران ہو کر کہا اس پسندیدگی کی وجہ کیا ہے ؟ میں نے سادگی سے کہا کہ میں نے ابھی بے نظیر بھٹو کو نہیں دیکھا نہ ہی میری اُن سے کوئی ملاقات ہے ۔ مگر میرا دل کہتا ہے کہ اس وقت ان کے پائے کی کوئی لیڈر نہیں ہے۔ وہ بہت بہادر،ذہین، قابل، محنتی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اُن میں صبر ،برداشت اور تہذیب ہے۔ مجھے اُن کا دبنگ اور دلیرانہ انداز پسند ہے۔ وہ ڈرتی نہیں ہیں۔ نظامی صاحب میرے جواب سے متاثر ہوئے ۔ پھر انہوں نے ایک تیکھا سوال کیا کہ اچھا آصف زر داری صاحب کے بارے میں کیا رائے ہے ۔ انہیں تو لوگ’’ 10 پرسنٹ‘‘ کہتے ہیں۔ میں نے چندلمحے سوچا اور کہا کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اگر آصف زرداری سے شادی کی ہے تو یقینا اُن میں کچھ خوبیاں دیکھ کر ہی کی ہوگی ۔ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آصف زرداری جیل میں ہیں ۔جوانی کے دن جیل میں کاٹنا، اپنے بیوی بچوں سے دور رہنا اورماں باپ اور بہن بھائیوں کے بغیر قید خانے میں جینا بہت مشکل کام ہے۔ خاص طور پر بیوی بچوں کے بغیر رہنا بذِا ت خود سزا ہے۔ زرداری صاحب نے کوئی ڈیل نہیں کی۔ جیل سے باہر نکلنے کے لیے شور نہیں ڈالا ۔میرے حساب سے یہ آصف زرداری کی قربانی بھی ہے اور بہادری بھی ہے۔ نظامی صاحب نے کہا کہ دونوں جواب میری توقعات کے بر عکس دئیے ہیں لیکن ان میں سچائی اور وزن ہے۔ یہ بتانے کا مقصد محض اتنا ہے کہ ہر انسان میں اچھائی کی روشنی ہوتی ہے۔ بس بسا اوقات انسان غلط ٹریک پر چل نکلے یا چلا دیا جائے تو وہ روشنی ہلکی ہو کر معدوم ہو جاتی ہے۔ جب آپ کے وزیر اور مشیر اچھے ہوں تو آپ اچھے کاموں کی طرف راغب رہتے ہیں ۔ لیکن جب وزیر اور ُمشیر انتہا درجے کے چاپلوس ، خود غرض،اور لالچی ہوں تو دنیا کا کوئی بھی سربراہ کبھی اچھا اور کامیاب حکمران ثابت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ میں نے شہباز شریف صاحب کے متعلق کہا کہ وہ اپنے پہلے دُور میں بہترین ایڈمنسٹریٹر تھے اور عوام کا درد بھی رکھتے تھے۔ دوسرے دُور میں انہیں پروجیکشن کا شوق چڑھ گیا جو کسی بھی حکمران کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ آپ صرف بیانات، تقریروں اور دعووٰں سے ایک کامیاب اور مقبول حکمران نہیں بن سکتے۔ جس طرح محض سوکھے اور خالی خولی اقوالِ زریں سے کوئی آدمی دانشور نہیں بن سکتا ۔ اب جب کہ ملک چاروں طرف سے دہشت گردی، بحرانوں، ٹیکسوں، مہنگائی اور مسائل میں د ھنسا ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ ملک کو ان سب عذابوں سے نکالنا صدر، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ مال و دولت انسان کسی بھی طریقے سے کما سکتا ہے۔ ملک میں بے شمار لوگ ارب پتی اور کروڑ پتی ہیں لیکن کیا ان سب کے لیے دلوں میں عزت محبت ہے؟؟ اگر دولت سے انسان سب کچھ خرید سکتا تو قارون سے بڑھ کر کوئی دنیا میں خوش نصیب نہ ہوتا۔ وزیراعظم نے انسانی سمگلنگ اور کالے دھندے کی بات کی ہے کہ اس مکروہ عمل سے انسانی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں۔ بدقسمتی سے انسانی سمگلنگ کے لیے پاکستان ایک آسان ٹارگٹ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ غربت اور بدترین مہنگائی ہے ۔ کہتے ہیں کہ غربت اُم الخبائث ہے۔ غربت سے یہ سب جرائم پیدا ہوتے ہیں۔ خالی پیٹ تو خدا یاد نہیں آتا ۔ انسان غربت سے مجبور ہو کر خودکشی تک کر لیتا ہے۔ سوچیں کہ جسم میں سوئی چُبھ جائے تو بڑے سے بڑا آدمی تڑپ جاتا ہے۔کُجا کہ آدمی اپنی جان ہی لے لے ۔ جان لینا آسان کام نہیں ۔ بے وقوف لوگ کہتے ہیں کہ خودکشی کرنے والا بزدل ہوتا ہے ۔ میں تو کہتی ہوں خودکشی کرنے والے سے بڑھ کر کوئی بہادر نہیں ہوتا جو اپنی زندگی کی سانسوں کی مالا اپنے ہاتھ سے توڑ دیتا ہے۔ دہشت گردی کے پیچھے بھی غربت اور جہالت بیٹھی ہے۔ آدمی غربت سے مجبور ہو کر گناہ پر آمادہ ہوتا ہے ۔کیا کوئی طوائف دل سے چاہتی ہے کہ وہ اپنا جسم انواع و اقسام کے مردوں کو بیچے؟؟ کون ماں باپ ہوں گے جو اپنے بچوں کو غربت اور افلاس سے مجبور ہو کربیچ دیتے ہیں۔ انسانی سمگلنگ میں بھی غربت کا بڑا ہاتھ ہے۔ کالا دھندہ بھی غربت سے بھاگنے کا طریقہ ہے ۔ جس میں میں لالچ کے بیج گر جاتے ہیں۔ اگر لوگوں کے پاس روزگار ہو ،کام کے مواقع ہوں۔ کھانے کے لیے پیسے ہوں ،سر پر چھت اور تن پر کپڑے ہوں تو لوگ کیوں چوری کریں، کیوں ڈاکے ڈالیں ،کیوں بم دھماکے کریں اور کیوں انسانی سمگلنگ کی نوبت آئے۔ البتہ کالا دھندا مذموم اور مکروہ خواہشوں کے نتیجے میں عمل میں آتا ہے۔ لوگ ملک چھوڑ کر کیوں جاتے ہیں؟ اگر ان کی ضروریات زندگی پاکستان میں پوری ہو جائیں تو انہیں کیا ضرورت ہے کہ اپنا ملک، اپنی دھرتی ،اپنی بیوی بچے، اپنا گھر بار، اپنی زبان اورثقافت چھوڑ کر پرائے دیس میں جائیں وہ بھی غیر قانونی طریقوں سے اور پھر کنٹینروں کشتیوں میں موت کے منہ میں چلے جائیں ۔ وزیراعظم صاحب انسانی، اخلاقی حوالے سے سوچنا ہوگا کہ یہ انسانی سمگلنگ کسی ایک آدمی کا کُھو جانا یا مر جانا نہیں۔ اس سے کئی زندگیاں وابستہ ہوتی ہیں۔ جب ایک انسان مرتا ہے تو حقیقتاً اس کے ساتھ اس کے پیارے بھی مر جاتے ہیں۔یہ ایک آدمی کی نہیں پورے خاندان کی موت ہوتی ہے ۔ باقی اس کالے دھندے سے لاکھوں لوگوں کو وقتی فائدہ ضرور ہوتا ہے مگر کروڑوں زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ آئندہ 10 سالوں میں ہمارے موجودہ سیاستدان حکمرانوں میں سے ایک ہزار لوگ زندہ نہیں ہوں گے۔ ان سب کے پاس صرف یہی 10 سال بلکہ شایدا س بھی کم وقت رہ گیا ہے تو ہمارے حکمران یہ کیوں نہیں سوچتے کہ زندگی بھر عیش کر لیاہے ۔ چلو اب اپنی عوام کے دکھ درد کا ازالہ کر دیں۔ مجید نظامی صاحب مرحوم کو دنیا سے رخصت ہوئے بارواں برس ہے لیکن انہوں نے جو بنی نوع انسان کی خدمت کی اور جس طرح خاموشی سے لوگوں کی مدد کی ۔اپنی اس نیکی اور خاموش خدمت سے آج بھی وہ ہمارے دلِوں میں زندہ ہیں۔ ہم تو ان کے اپنے تھے لیکن غیر بھی اُن کی عزت کرتے تھے، اُن سے محبت کرتے ہیں اور اُن کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔
اسلامی سمگلنگ اور کالا دھندہ!!
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ انسانی سمکلنگ اور کالا دھندہ مکمل طور پر ختم کر دیں گے ۔ یہ بیان کافی اہم ہے ۔ دُعا ہے کہ شہباز شریف اس پر عمل بھی کر کے دکھائیں ۔ کیونکہ انسانی سمگلنگ اور کالا دھندہ اسی قدر مکروہ افعال ہیں جیسے کسی کا جائز حق مارنا یا پھر کسی کو جیتے جی مار دینا۔ میں ہمیشہ ایک بات کہتی ہوں کہ شہباز شریف اُس وقت سب سے اچھے، با عمل اور بہترین سربراہ تھے جب وہ پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ اُس وقت انہوں نے پنجاب میں اصلاحات کیں۔ ترقیاتی کام کروائے اور لوگوں کو ریلیف دیا تو لوگوں نے بھی انھیں ’’ خادم اعلیٰ‘‘ سمجھا اور خود میں نے انہیں ’’ہر دل عزیز وزیراعلی‘‘ کا خطاب دیا ۔ 1997 ء کی بات ہے جب جناب مجید نظامی صاحب نے مجھے کسی کام سے آفس ُبلایا ۔ کوئی انکوائری انہوں نے میرے سپرد کی تھی۔ اچانک کسی نے انہیں فون کیا اور صدر آصف زرداری کے متعلق بات ہونے لگی۔ میں کرسی پر بیٹھی انتظار کر رہی تھی کہ فون بند ہو تو باقی معاملے پر بات ہو۔ اچانک محترم نظامی صاحب نے ایک انگریزی اخبار نکال کر مجھے دیا اور کہا کہ آپ اس کا ترجمہ کر کے خواتین ایڈیشن میں لگائیں۔ یہ آرٹیکل محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر تھا ۔ مجید نظامی صاحب نے غیر متوقع طور پر مجھ سے سوال کیا کہ آپ کو بے نظیر بھٹو کیسی لگتی ہیں ۔ میں نے اُسی دن بے نظیر بھٹو صاحبہ پر کالم لکھا تھا کہ’’ یا اللہ بے نظیر بھٹو کو نرس بنا ‘‘۔ نظامی صاحب نے استفہامیہ انداز میں میری طرف دیکھا۔ اس کالم کا عنوان میں نے گزشتہ روز نرسوں کے شدید احتجاج پر لکھا تھا جس میں وہ بار بار مطالبہ کر رہی تھیں کہ یا اللہ بے نظیر کو نرس بنا۔ میں نے دلچسپ انداز میں یہ کالم لکھا تھا لیکن جو جواب میں نے محترم مجید نظامی صاحب کا دیا۔ اُس جواب پرنظامی صاحب حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ میاں برادران اپنی بہت تابعداری اور فرمانبرداری ،روایتی اسلوب کی وجہ سے نظامی صاحب کے دل کے بہت قریب تھے ۔ میں نے نظامی صاحب سے کہا کہ مجھے بے نظیر بھٹو دل سے پسند ہیں۔ وہ میری آئیڈیل ہیں؟ نظامی صاحب نے حیران ہو کر کہا اس پسندیدگی کی وجہ کیا ہے ؟ میں نے سادگی سے کہا کہ میں نے ابھی بے نظیر بھٹو کو نہیں دیکھا نہ ہی میری اُن سے کوئی ملاقات ہے ۔ مگر میرا دل کہتا ہے کہ اس وقت ان کے پائے کی کوئی لیڈر نہیں ہے۔ وہ بہت بہادر،ذہین۔ قابل، محنتی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اُن میں صبر ،برداشت اور تہذیب ہے۔ مجھے اُن کا دبنگ اور دلیرانہ انداز پسند ہے۔ وہ ڈرتی نہیں ہیں۔ نظامی صاحب میرے جواب سے متاثر ہوئے ۔ پھر انہوں نے ایک تیکھا سوال کیا کہ اچھا آصف زر داری صاحب کے بارے میں کیا رائے ہے ۔ انہیں تو لوگ’’ 10 پرسنٹ‘‘ کہتے ہیں۔ میں نے چندلمحے سوچا اور کہا کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اگر آصف زرداری سے شادی کی ہے تو یقینا اُن میں کچھ خوبیاں دیکھ کر ہی کی ہوگی ۔ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آصف زرداری جیل میں ہیں ۔جوانی کے دن جیل میں کاٹنا، اپنے بیوی بچوں سے دور رہنا اورماں باپ اور بہن بھائیوں کے بغیر قید خانے میں جینا بہت مشکل کام ہے۔ خاص طور پر بیوی بچوں کے بغیر رہنا بذِا ت خود سزا ہے۔ زرداری صاحب نے کوئی ڈیل نہیں کی۔ جیل سے باہر نکلنے کے لیے شور نہیں ڈالا ۔میرے حساب سے یہ آصف زرداری کی قربانی بھی ہے اور بہادری بھی ہے۔ نظامی صاحب نے کہا کہ دونوں جواب میری توقعات کے بر عکس دئیے ہیں لیکن ان میں سچائی اور وزن ہے۔
یہ بتانے کا مقصد محض اتنا ہے کہ ہر انسان میں اچھائی کی روشنی ہوتی ہے۔ بس بسا اوقات انسان غلط ٹریک پر چل نکلے یا چلا دیا جائے تو وہ روشنی ہلکی ہو کر معدوم ہو جاتی ہے۔ جب آپ کے وزیر اور مشیر اچھے ہوں تو آپ اچھے کاموں کی طرف راغب رہتے ہیں ۔ لیکن جب وزیر اور ُمشیر انتہا درجے کے چاپلوس لوگ خود غرض،اور لالچی ہوں تو دنیا کا کوئی بھی سربراہ کبھی اچھا اور کامیاب حکمران ثابت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ میں نے شہباز شریف صاحب کے متعلق کہا کہ وہ اپنے پہلے دُور میں بہترین ایڈمنسٹریٹر تھے اور عوام کا درد بھی رکھتے تھے۔ دوسرے دُور میں انہیں پروجیکشن کا شوق چڑھ گیا جو کسی بھی حکمران کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ آپ صرف بیانات تقریروں اور دعووٰں سے ایک کامیاب اور مقبول حکمران نہیں بن سکتے۔ جس طرح میں سے کوئی آدمی دانشور نہیں بن سکتا ۔ اب جب کہ ملک چاروں طرف سے دہشت گردی، بحرانوں، ٹیکسوں، مہنگائی اور مسائل میں د ھنسا ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ ملک کو ان سب عذابوں سے نکالنا صدر، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ مال و دولت و انسان کسی بھی طریقے سے کما سکتا ہے۔ ملک میں بے شمار لوگ ارب پتی اور کروڑ پتی ہیں لیکن کیا ان سب کے لیے دلوں میں عزت محبت ہے؟؟ اگر دولت سے انسان سب کچھ خرید سکتا تو قارون سے بڑھ کر کوئی دنیا میں خوش نصیب نہ ہوتا۔ وزیراعظم نے انسانی سمگلنگ اور کالے دھندے کی بات کی ہے کہ اس مکروہ عمل سے انسانی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں۔ بدقسمتی سے انسانی سمگلنگ کے لیے پاکستان ایک آسان ٹارگٹ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ غربت اور بدترین مہنگائی ہے ۔ کہتے ہیں کہ غربت ام الخبائث ہے۔ غربت سے یہ سب جرائم پیدا ہوتے ہیں۔ خالی پیٹ تو خدا یاد نہیں آتا ۔ انسان غربت سے مجبور ہو کر خودکشی تک کر لیتا ہے۔ سوچیں کہ جسم میں سوئی چُبھ جائے تو بڑے سے بڑا آدمی تڑپ جاتا ہے۔کُجا کہ آدمی اپنی جان ہی لے لے ۔ جان لینا آسان کام نہیں ۔ بے وقوف لوگ کہتے ہیں کہ خودکشی کرنے والا بزدل ہوتا ہے ۔ میں تو کہتی ہوں خودکشی کرنے والے سے بڑھ کر کوئی بہادر نہیں ہوتا جو اپنی زندگی کی سانسوں کی مالا اپنے ہاتھ سے توڑ دیتا ہے۔ دہشت گردی کے پیچھے بھی غربت اور جہالت بیٹھی ہے۔ آدمی غربت سے مجبور ہو کر گناہ پر آمادہ ہوتا ہے ۔کیا کوئی طوائف دل سے چاہتی ہے کہ وہ اپنا جسم انواع و اقسام کے مردوں کو بیچے؟؟ کون ماں باپ ہوں گے جو اپنے بچوں کو غربت اور افلاس سے مجبور ہو کربیچ دیتے ہیں۔ انسانی سمگلنگ میں بھی غربت کا بڑا ہاتھ ہے۔ کالا دھندہ بھی غربت سے بھاگنے کا طریقہ ہے ۔ جس میں میں لالچ کے بیج گر جاتے ہیں۔ اگر لوگوں کے پاس روزگار ہو ،کام کے مواقع ہوں۔ کھانے کے لیے پیسے ہوں ،سر پر چھت اور تن پر کپڑے ہوں تو لوگ کیوں چوری کریں، کیوں ڈاکے ڈالیں ،کیوں بم دھماکے کریں اور کیوں انسانی سمگلنگ کی نوبت ائے۔ البتہ کالا دھندا مذموم اور مکروہ خواہشوں کے نتیجے میں عمل میں آتا ہے۔ لوگ ملک چھوڑ کر کیوں جاتے ہیں؟ اگر ان کی ضروریات زندگی پاکستان میں پوری ہو جائیں تو انہیں کیا ضرورت ہے کہ اپنا ملک، اپنی دھرتی ،اپنی بیوی بچے، اپنا گھر بار، اپنی زبان اورثقافت چھوڑ کر پرائے دیس میں جائیں وہ بھی غیر قانونی طریقوں سے اور پھر کنٹینروں کشتیوں میں موت کے منہ میں چلے جائیں ۔ وزیراعظم صاحب انسانی، اخلاقی حوالے سے سوچنا ہوگا کہ یہ انسانی سمگلنگ کسی ایک آدمی کا کُھو جانا یا مر جانا نہیں۔ اس سے کئی زندگیاں وابستہ ہوتی ہیں۔ جب ایک انسان مرتا ہے تو حقیقتاً اس کے ساتھ اس کے پیارے بھی مر جاتے ہیں۔یہ ایک آدمی کی نہیں پورے خاندان کی موت ہوتی ہے ۔ باقی اس کالے دھندے سے لاکھوں لوگوں کو وقتی فائدہ ضرور ہوتا ہے مگر کروڑوں زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ آئندہ 10 سالوں میں ہمارے موجودہ سیاستدان حکمرانوں میں سے ایک ہزار لوگ زندہ نہیں ہوں گے۔ ان سب کے پاس صرف یہی 10 سال بلکہ شایدا س بھی کم وقت رہ گیا ہے تو ہمارے حکمران یہ کیوں نہیں سوچتے کہ زندگی بھر عیش کر لیاہے ۔ چلو اب اپنی عوام کے دکھ درد کا ازالہ کر دیں۔ مجید نظامی صاحب مرحوم کو دنیا سے رخصت ہوئے بارواں برس ہے لیکن انہوں نے جو بنی نوع انسان کی خدمت کی اور جس طرح خاموشی سے لوگوں کی مدد کی ۔اپنی اس نیکی اور خاموش خدمت سے آج بھی وہ ہمارے دلِوں میں زندہ ہیں۔ ہم تو ان کے اپنے تھے لیکن غیر بھی اُن کی عزت کرتے تھے، اُن سے محبت کرتے ہیں اور اُن کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔
انسانی سمگلنگ اور کالا دھندہ!!
Mar 18, 2025