
ایک مفکر نے کہا تھا کہ قانون مکڑی کا جالا ہے جسے طاقتور لوگ پھاڑ کر نکل جاتے ہیں جبکہ کمزور لوگ مکھیوں کی طرح اس جالے میں پھنس جاتے ہیں- پاکستان کے سابق سپہ سالار جنرل گل حسن جو قائد اعظم کے اے ڈی سی اور ذوالفقار علی بھٹو کے سٹاف افسر رہے انہوں نے اپنی یادداشتوں کی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ" ایک روز وہ گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم کے ساتھ ملیر کراچی کی جانب جا رہے تھے- راستے میں ریلوے کا پھاٹک بند تھا گاڑی آنے میں ابھی چند منٹ باقی تھے- میں نے پھاٹک کھلوا دیا مگر قائد اعظم نے آگے جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ اگر میں قانون کی پرواہ نہیں کروں گا تو پاکستانی قوم سے آئین اور قانون کی حکمرانی کی توقع کیسے کر سکتا ہوں- ایک روز میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جا رہا تھا کہ راستے میں ایک چوک پر ڈرائیور نے ریڈ لائٹ کی وجہ سے اپنی گاڑی روک دی - ذوالفقار علی بھٹو نے ڈرائیور سے کہا کہ آگے چلو میری گاڑی کو کوئی نہیں روک سکتا" ذوالفقار علی بھٹو عظیم لیڈر تھے البتہ وہ بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ فیوڈل مائنڈ سیٹ کا بھی شکار تھے-پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ عسکری اور سویلین حکمران قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کے قانون پر یقین رکھتے ہیں وہ آئین اور قانون کی حکمرانی کا پرچار تو کرتے رہتے ہیں مگر اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں- انتہائی افسوس کی بات ہے کہ 76 سال سال کے بعد بھی ہم پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا کلچر پیدا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں- آئین و قانون کی حکمرانی کے سلسلے میں پاکستان کے مقبول ترین لیڈر عمران خان بھی عملی طور پر کوئی صحت مندانہ روایات قائم نہیں کرسکے-
عمران خان توشہ خانہ کیس کے سلسلے میں ایڈیشنل اینڈ سیشن جج ظفراقبال کی عدالت میں پیش ہونے سے گریز کرتے رہے جس کا جواز انہوں نے یہ بتایا کہ وہ جگہ چونکہ بہت تنگ ہے اس لئے ان کی جان کو خطرہ ہے-عمران خان کی مسلسل غیر حاضری کی بنا پر ایڈیشنل سیشن جج نے ان کے وارنٹ گرفتاری بلا ضمانت جاری کیے جن پر عمل درآمد نہ کیا جا سکا - اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو ایک آبرومندانہ راستہ دیا اور ایڈیشنل سیشن جج کے ورانٹ گرفتاری معطل کر دیئے تاکہ اگلی پیشی پر عمران خان خود عدالت میں حاضر ہو سکیں-افسوس کی بات ہے کہ عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کورٹ کے فیصلے کے برعکس ایک بار پھر توشہ خانہ کیس کے سلسلے میں پیش ہونے سے گریز کیا- ایڈیشنل سیشن جج نے ایک بار پھر وارنٹ گرفتاری بلا ضمانت جاری کر دیئے اور پولیس کو ہدایت کی کہ عمران خان کو 18 مارچ کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرے-وارنٹ گرفتاری عام طور پر اس لیے جاری کیے جاتے ہیں کہ ملزم کی حاضری کو عدالت میں یقینی بنایا جاسکے اور عدالت کی کارروائی کو مکمل کیا جا سکے-اسلام آباد پولیس اور پنجاب پولیس نے پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے غیر معمولی پولیس فورس استعمال کر کے عمران خان کو گرفتار کرنے کی ناکام کوشش کی- حیران کن امر یہ ہے کہ پولیس کو غیر مسلح رکھا گیا ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے بھی نہیں تھے جن کو بوقت ضرورت استعمال کرکے اپنا دفاع کر سکتے - پولیس خالی ہاتھ تھی جس پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے شدید سنگ باری کی جس سے درجنوں پولیس کے اہلکار اور افسر زخمی بھی ہو گئے پولیس نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے بے تحاشہ آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں استعمال کیں-اس افسوسناک معرکہ آرائی کے نتیجے میں صورت حال اس قدر کشیدہ ہوگئی کہ ایک آڈیو لیک کے مطابق تحریک انصاف سینٹرل پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے صدرپاکستان ڈاکٹر علوی سے بات کی کہ وہ اس مسئلہ پر مداخلت کریں کیونکہ تحریک انصاف کے کارکن پولیس پر پٹرول بم پھینک رہے ہیں اور لاشیں گرنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے جس کے بعد انتخابات بھی ملتوی ہو سکتے ہیں - عمران خان سے بات کریں کہ وہ گرفتاری پیش کردیں- ایک اور آڈیو کے مطابق ڈاکٹر یاسمین راشد نے بریگیڈیئر اعجاز شاہ کو فون پر بتایا کہ عمران خان نے تمام ایم این اے اور ایم پی اے کے امیدواروں سے کہا ہے کہ وہ ایک سو بندے لے کر زمان پارک پہنچیں اور جو نہیں پہنچے گا اس کو ٹکٹ جاری نہیں کیا جائے گا- عمران خان نے اس دوران اپنے ویڈیو پیغامات کے ذریعے اپنے پارٹی کے کارکنوں کو اپنی گرفتاری اور جان کے خطرے کے بارے میں آگاہ کیا جس سے ان میں اشتعال پیدا ہوا -عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے خلاف پورے پاکستان میں احتجاج کی کال بھی دی گئی جس کے بعد مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی امریکہ میں لابی فرم کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں امریکہ کے افغانستان میں نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو گرفتار کرنے سے پاکستان میں بحران مزید شدت اختیار کرے گا - پاکستان کسی پیچیدہ صورتحال سے بچنے کے لئے جون کے اوائل میں عام انتخابات کا اعلان کرے-رانا ثناءاللہ وفاقی وزیر داخلہ ہیں مگر وہ وزیرداخلہ کی بجائے پارٹی لیڈر کی حیثیت سے عمران خان اور تحریک انصاف کے لیڈروں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات جاری کرتے رہتے ہیں اپنے ایک بیان میں انہوں یہاں تک کہ دیا کہ ایک بار عمران خان ان کی گرفت میں آگئے تو قوم کو "فتنے" سے نجات مل جائے گی- ان منتقمانہ بیانات کی وجہ سے صورتحال مزید کشیدہ ہوتی جا رہی ہے اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں اشتعال پیدا ہوتا ہے-پاکستان کی موجودہ کشیدہ اور سنگین صورتحال سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو ہرگز قومی مفاد آئین اور قانون کی حکمرانی اور جمہوری اصولوں کا کوئی احساس نہیں ہے اور ریاست کے ساتھ سیاست کی جا رہی ہے- آزادی اور قومی سلامتی اور قومی یکجہتی کے تقاضوں کو بری طرح نظرانداز کیا جارہا ہے- زمان پارک کے گردونواح میں جو معرکہ آرائی ہوتی رہی وہ خانہ جنگی جیسی صورتحال پیش کر رہی تھی-پاکستان کو موجودہ کشیدہ صورت حال سے باہر نکالنے کے لئے ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ صدر پاکستان آرمی چیف اور وزیراعظم پاکستان مداخلت کریں اور کوئی آبرومندانہ راستہ نکالیں- تاکہ پاکستان کو موجودہ دہ سنگین ترین بحران سے باہر نکالا جاسکے اور انتخابات کے لئے حالات کو پرامن اور سازگار بنایا جا سکے- اگر حالات کو جوں کا توں چھوڑ دیا گیا توخدا نخواستہ ملک میں شدید ”خون خرابے کے اندیشے بڑھتے جائیں گے“ایڈیشنل سیشن جج ظفراقبال اقبال نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ یا معطل کرنے کی اپیل مسترد کر دی ہے اور کہا ہے کہ عمران خان نے ریاست کے وقار اور آئینی رٹ کو پامال کیا ہے لہزا وہ کسی نرمی کے مستحق نہیں رہے- لاہور ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ دینا ہے جس کے بعد پولیس عمران خان کی گرفتاری کا فیصلہ کرے گی-تحریک انصاف کے حامی تاریخی خوش فہمی میں مبتلا ہو چکے ہیں بقول حبیب جالب -:
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو