
فلموں میں ہیرو کو سپر ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہمارے یہاں کی پرانی پنجابی فلموں میں تو ہیرو سپر سے بھی اوپر کی کوئی چیز ہوتا ہے، ایسا شخص جو اپنے سے کہیں بڑے مخالف کو ناکوں چنے چبوا دیتا ہے،،اسے نہ تو کوئی طاقتور دشمن نقصان پہنچا سکتا ہے نہ پولیس وغیرہ اور جیل کو تو وہ اپنا سسرال اور ہتھکڑی کو زیور قرار دیتا ہے۔ جی ہاں یہ ہمارا پنجابی فلموں کا شیر جوان ہیرو ہی ہوتا ہے جو پھانسی کے تختے پر بھی بھنگڑے ڈالتا ہوا چلا جاتا ہے۔ ہم جیسے معاشرے میں جہاں جذبات خیالات پر حاوی رہتے ہیں۔ شعور شور میں دبا رہتا ہے وہاں ایسے ڈائیلاگ ہیرو کو ’مرد کا بچہ‘ ثابت کرنے میں بڑے کارگر ثابت ہوتے ہیںلیکن حقیقت میں تو جیل جیل ہوتی ہے ، کچھ اور نہ بھی ہو جیل کی تنہائی بذات خود ایک بڑی حقیقت ہے۔ تنگ،اندھیرا کمرا اور اکیلا پن ہی بڑی سزا ہوتی ہے۔
صدیق سالک اپنی جنگی قیدی کی حیثیت سے گزارے گئے دنوں کی یاداشتوں پر مبنی تصنیف ’ہمہ یاراں دوزخ‘ میں قید تنہائی کی مشکلات کو تحریر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انھیں جب کھانے کے لیے دال ملتی تھی تو وہ اس میں سے پتھر چن کر الگ رکھ لیتے اور پھر وقت گزارنے کے لیے ان پتھروں کو دن بھر گنتے رہے اور ایک بار باتھ روم میں پڑے صابن کے کور کا ایک ٹکڑا ہاتھ لگ گیا تو چھپا کر پاس رکھ لیا اور دن بھر اس کاغذ پر درج تحریر کو پڑھتے رہے۔ تنہائی کے اس کرب کا احساس اسی کو ہوسکتا ہے جو اس سے گزرا ہو، اور یہی قید تنہائی بڑوں بڑوں کو توڑ دیتی ہے جسے آج کل کی سوشل میڈیا کی اصطلاح میں ’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘ بھی کہتے ہیں۔ تنہائی میں ان چیزوں کے بارے میں سوچنے کا وقت ملتا جو ہم زندگی کی مصروفیات میں نہیں سوچ پاتے۔ اپنی غلطیوں ،اپنے فیصلوں کا جائزہ لینے کا موقع، درحقیقت یہی قید تنہائی اور اس میں اپنے کیے فیصلوں پر نظر ثانی انسان کو بدل کر رکھ دیتی ہے اور ایک قسم کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کر دیتی ہے ۔
ویسے سیاستدانوں کو اگر جیل جانا پڑ جائے تو وہ اس کا فائدہ ہی اٹھاتے ہیں،ان ملکوں کی بات نہیں کرتے جن کی ہمارے یہاں اکثر مثالیں دی جاتی ہیں، جہاں ذاتی ساکھ کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے،عدالتوں کے فیصلے شکوک و شبہات سے مبرا ہوتے ہیں، جیل اور سزائیں تو بہت بعد کی بات ہے، الزام پر ہی سیاستدان یا کوئی اور اپنے عہدے سے فوری الگ ہوجاتا ہے لیکن ہم جیسے ملکوں میں سیاسی انتقام کا کارڈ کھیل کر اس کا خوب فائدہ اٹھایا جاتا ہے اورپھر ہمدردی کا ووٹ الگ۔ ہمارے یہاں شاید ہی کوئی بڑا سیاستدان ہو جو کبھی ’سرکاری مہمان‘ نہ رہا ہو،اور آج تک وہ اس کو ایک اعزاز کے طور پر پیش نہ کرتا ہو لیکن اس بار یہ صورتحال کچھ مختلف ہے۔ گزشتہ چند روز رات دن میڈیا کی سکرینیں جس ایک گرفتاری کی خبروں سے سرخ رہیں وہ بھِی نہ صرف پاکستان بلکہ شاید برصغیر کی سیاسی تاریخ کا پہلا ہی واقعہ ہوگا جس میں کسی سیاستدان نے گرفتاری سے بچنے کے لیے اتنی مزاحمت کی ۔ عمران خان کے بارے میں سبھی کا یہ خیال تھا کہ وہ ’ جیل کا میٹریل ‘ نہیں،ان کی جماعت بھی یہی سمجھتی ہے کہ وہ جیل نہیں کاٹ سکتے اسی لیے کارکنوں کو لڑوا دیا، ڈھال بنادیا۔
عمران خان کی گرفتاری کو ان کے وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد سے ہی خارج از امکان قرار نہیں تھی ۔حکومتی جماعتوں کے اندر بھی اس حوالے سے کافی بحث ہوئی کہ اس گرفتاری سے کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوسکتا ہے لیکن اکثریت رائے یہی رہی کہ اس گرفتاری کو عدالتی احکامات پر چھوڑ دینا چاہیے تاکہ کسی قسم کے سیاسی انتقام کا تاثر نہ جائے،حکومتی جماعتوں کو یقین تھا کہ جس طرح کے کیسز ان کے خلاف ہیں کہیں نہ کہیں ان کی گرفتاری کے عدالتی احکامات آسکتے ہیں اور پھر عدالت کے وارنٹ آہی گئے وہ بھی ناقابل ضمانت، جس کا جواز بھی خود خان صاحب نے بار بار طلبی کے باوجود عدالت میں پیش نہ ہوکر فراہم کردیا۔ اب حکومت اس پوزیشن میں آگئی کہ وہ ہر دو صورت میں فائدہ لے سکتی تھی ۔ گرفتار کر کے بھی اور عدم گرفتاری پر بھی لیکن شاید بلکہ یقینا جیل کا خوف آڑے آگیا اور خان صاحب نے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ کارکنوں کو گھر کے باہر بلالیا گیا اور پولیس کے سامنے کھڑا کردیا گیا۔یہ سب عمران خان کے خلاف جارہا تھا۔ مخالفین بزدلی کے طعنے دے رہے تھے، عدالتیں بھی اسے احکامات کی خلاف ورزی قرار سے رہی تھیں اور دوسری جانب حالات کی خرابی بھی پی ٹی آئی کے لیے فائدہ مند نہیں تھی۔ اس سے صوبے میں ڈیڑھ ماہ بعد ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا جواز مل سکتا تھا لیکن خان صاحب نے اس سب کی قیمت پر خود کو گرفتاری سے بچانے کا فیصلہ کیا۔ سبھی سیاستدان جیل کی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں، وہاں ہرگز جانا نہیں چاہتے لیکن وہ اپنے حامیوں کے لیے ایسا تاثر بھی نہیں چھوڑنا چاہتے کہ ان کا لیڈر ڈرتا ہے بلکہ وہ ’مرد کا بچہ‘ ہے اسی لیے وہ جیل بھی ’ سسرال‘ کی طرح ہی جاتے ہیں۔ خان صاحب آگے بھی یقینا کہیں گے کہ وہ جیل جانے سے نہیں ڈرتے۔ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، یہ بھی ایک بار پھر کہیں گے کہ اس ملک میں کمزور اور طاقتور کے لیے الگ الگ قانون ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی متوقع گرفتاری پر جو ردعمل دیا وہ ان کی سیاسی زندگی میں ہمیشہ پیچھا کرتا رہے گا۔