
کوئی بیس برس قبل کراچی میں ڈاکٹر یونس عباد کے ہاں تحریک استقلال کی سنٹرل کمیٹی کاایک بہت اہم اجلاس ہوا۔جس میں تحریک استقلال کے سربراہ اصغرخاں نے دیگر امور نمٹانے کے بعد اس دعوت کا ذکرکیا جس میں عمران خاں نے تحریک استقلال اورتحریک انصاف کوباہم مل کرجدوجہد کرنے کا عزم کیاتھا۔بات ذرا اورآگے بڑھی تومعلوم ہواکہ عمران خاں چاہتے ہیں کہ تحریک استقلال تحریک انصاف میں ضم ہوجائے ۔لاہورکینٹ کچہری کے نامور وکیل اور تحریک استقلال لاہور کے نائب صدر جاوید امین منیر نے اس کی سخت مخالفت کی ۔اس کے علاوہ کراچی والوں نے بھی اس تجویز پر خط تنسیخ کھینچ دیا۔میری اور ملک حامد سرفراز کی رائے تھی کہ پہلے عمران خاں سے پوری تفصیل کے ساتھ بات کرلی جائے کہ کسی وقت اگروہ برسراقتدار آجاتے ہیں،جس کاتب اگرچہ دوردور تک کوئی نشان نہ تھا،توپھر قومی اورچاروں صوبوں کی اسمبلیوں میں دونوں جماعتوں کا حصہ کس قدرہوگا۔سینٹ میں کتنے کتنے ارکان ہوں گے ۔وزارتوں کاکوٹا کس طرح تقسیم ہوگا اور صوبائی گورنروں کے علاوہ ریاست کے دیگر محکموں کی سربراہی کی تقسیم کیسے ہوگی۔ہماری اس رائے کو اجلاس میں بہت پذیرائی ملی اور اجلاس کے بعد عمران خاں کے ساتھ تحریک استقلال کے بڑوں کے مذاکرات شروع ہوگئے مگر سست روی کے ساتھ ۔پھرجب 2011ءکے لاہور میں عمران خاں کے جلسے نے سیاست میں اپنا رخ روشن دکھایا تومذاکرات میں بھی تیزی آناشروع ہوگئی ۔مجھے اس وقت یہ تونہیں معلوم ہے کہ تحریک استقلال کو اسمبلی کی کتنی نشستوں کی آفر ہوئی ۔تاہم 2018ءکے انتخابات آئے تو سخت دھچکا لگاکہ تحریک استقلال کوپورے ملک میں چند نشستوں پر ہی ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ابھی اس دھچکے سے باہر بھی نکل نہ پایا تھا کہ خبر ملی کہ سوائے اصغرخاں کے صاحبزادے علی اصغر خاں کے کسی کو بھی تحریک انصاف کاٹکٹ نہیں دیا گیا۔ہوسکتا ہے کہ کسی صاحب کو ملاہو مگر تاحال میرے ذہن میں تحریک استقلال کا ایسا دیگر کوئی شخص نہیں آرہا جسے تحریک انصاف نے ٹکٹ دیا ہوا۔ادھر تحریک استقلال کے راہنما انتظارکرتے رہے اور ادھر علیم خاں اورکچھ دیگر باریش سیاسی سوداگراپنی دکانداری میں مصروف رہے۔اوریوں عمران خاں کے ہاتھوں تحریک استقلال کا ایساپتہ کٹا جواتنی بڑی سیاسی جماعت میں تابوت کاآخری کیل ثابت ہوا۔ اب تحریک انصاف میںماسوائے علی اصغرخاں کے تحریک استقلال کا کوئی قابل ذکر سیاسی راہنما ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔اگر کوئی ہے توصرف وہی جس نے تحریک استقلال چھوڑکر تحریک انصاف میں شمولیت کی ۔یہ ایک بڑاسیاسی المیہ تھاکہ تحریک انصاف نے تحریک استقلال کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے انحراف کیا۔تحریک استقلال اورتحریک انصاف کایہ واقعہ اب بارپھر اس وقت یاد آیا جب چوہدری پرویز الہی نے اپنی مسلم لیگ تحریک انصاف میں ضم کردی۔اصغرخاں نے تواپنی سنٹرل کمیٹی سے پھر بھی پوچھ تولیاتھا۔ارکان کی رائے تولی تھی جوایک جمہوری عمل تھا،جماعت کے اندراس کی پوری پاسداری کی مگر چوہدری پرویزالہی نے تومسلم لیگ کی کونسل کوکوئی اجلاس طلب کئے بغیر ہی تحریک انصاف میں اسے ضم کردیا ۔مجھے وہ فلم دوبارہ چلتی نظر آرہی ہے جس میں تحریک استقلال کاکردار تھا،جسے کاٹ دیاگیا۔اس میدان میں صرف مخالفین ہی نہیں اپنوں کابھی قافیہ تنگ کیاجاتا ہے ۔اگرکبھی ایساہوا کہ چوہدری پرویز الہی کوپنجاب کاوزیر اعلی نہ بنایا گیایامحض ایک کٹھ پتلی کے طورپر استعمال کیاگیا اوران کے احکامات کی تعمیل نہ کی گئی توپھر چوہدری صاحب کا کیاطرز عمل ہوگا۔تحریک استقلال اورتحریک انصاف کے درمیان میں نے اصغر خاں کوخسارے کاسودا کرتے دیکھا۔اب خدشہ ہے کہ کہیں خسارے کایہ سوداچوہدری صاحب کو نہ کرنا پڑجائے ۔کچھ خدشات اس لئے بھی پیداہورہے ہیں۔کہ مسلم لیگ ہاﺅس لاہور کاقبضہ اب چوہدری شجاعت حسین کومل چکا ہے۔ کیونکہ پرویز الہی کا تعلق اب مسلم لیگ سے نہیں ۔جب سے چوہدری صاحب نے تحریک انصاف میں انضمام کیا ہے ،ان کارکنوں اور راہنماﺅں کا، جنہوں نے چوہدری پرویز الہی کاساتھ دیا۔ا ن کا کوئی پرسان حال نہیں ۔انہیں راہنمائی دینے والا کوئی نہیں ۔ابھی تک کوئی بھی ذمہ دار آدمی فون تک سننے کے لئے تیار نہیں۔پرویز الہی اورمسلم لیگ کے کارکنوں کے درمیان کامل علی آغا ایک پل کی حثیت رکھتے تھے۔ان کی بابت کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ آج کل کیاکررہے ہیں۔سینکڑوں لوگ دن میں کئی باران فون کرتے ہیں مگر وہ سنتے ہی نہیں ۔چوہدری پرویز الہی کے پاس فون ہے ہی نہیں محمد خاں بھٹی پہلے مفرور ہوئے پھر گرفتار ہوگئے ،ان سے بات کرنا ویسے ہی اب ناممکن ہے ۔چوہدری پرویز الہی اورمونس الہی نے بھی ابھی تک میڈیا کے ذریعے مسلم لیگ کے اپنے گروپ کوکوئی رسید نہیں دی۔
پس تحریر:۔میرے لئے یہ کالم لکھنا بہت مشکل تھا کیونکہ میراتعلق چوہدری پرویز الہی کے ساتھ ہے اورمیں عمران خاں کی جدوجہد کا بھی حامی ہوں ۔مشکل اس لئے کہ اس کالم سے دونوں کے ناراض ہونے کا اندیشہ ہے ۔مگرکیا کروں سچ بولنے اورلکھنے کی"غیر منافع بخش"عادت کانوں میں آکرآواز دیتی ہے کہ دیکھنا کہیں دوبارہ خسارے کا سودانہ لے ڈوبے۔