
ٖFahmida Kousar17
قائد اعظم نے سیاست کو شطرنج کے کھیل سے تشبیہ دی ہے اور یہ کھیل ذہانت مہارت اور ہوشیاری کے ساتھ اور انتہائی ٹھنڈے دل اور دماغ سے کھیلا جاتا ہیغصہ اگریشن نفرت یہ وہ محرکات ہیں جو آپکوہرا دیتے ہیں اس کیفیت میں آپ جیتی ہوئی بازی بھی ہار جاتے اور خفت بھی اٹھانی پڑتی ہے بقول پروین شاکر
اس شرط پہ کھیلون گی پیا پیارکی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری
لیکن محبت اورسیاست کے کھیل میں فرق یہ ہے کہ محبت میں کوئی جیتنا ہی نہیں چاھتا اور سیاست میں سب جیتنا چاہتیہیں اور اسکے لئے اتنی جارحیت پر اتر آتے ہیں طاقت کے بل بوتے پر جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جمہوریت میں ٹیبل ٹاک سے مسائل کا حل ممکن ہے میری ملازمہ بعض اوقات بڑی گہری بات کرجاتی ہے کہنے لگی باجی ایناں نوں بزتی محسوس نہیں ہوندی۔ کن کو۔ میں نے پوجھا۔باجی آپس وچ پاکسانیاں نوں لڑاندینیں وہ تین دن پہلے زمان پارک میں ہونے والے تصادم کا زکر کر رہی تھی میں نے کہا۔ سوال کسی ایک یادوسریکی بیعزتی کانہیں قومی تشخص کی بے عزتی کا ہے۔وہ کچھ سمجھی تونہیں بس اتنا کہا کہ باجی مل بیٹھ کے انصاف نال فیصلہ کر لیاکرن۔ وہ تو چلی گئی لیکن میں دل ہی دل میں اسکی جمہوری سوچ کوداد دئیے بغیر نہ رہ سکی ایک ادیب نے لکھاکہ پہلے زمانوں میں بستی کے بڑے سیانے شام کوآگ کاالاؤ روشن کرکے ہاتھ بھی سینکتے۔ اور بستی کے مسائل کیحل پر گفت وشنید کرتے۔ مسائل بھی حل ہوجاتے اور اتفاق بھی برقرارہتا ایک مزاح نگار لکھتا ہے اب وہ نہ اتفاق رہا اور نہ سیانے۔ اب صرف نفرت اور غصہ بچا ہے کہ اپنی ناپسند شخصیت کوکان سیپکڑ کر نکال دیں، اب جوشخص عوام کے دلوں میں گھر کئے بیٹھا ہے پہلے اسکو عوام کے دلوں سے تو نکالیں آپ نے اپنی جذباتی اورنفرت آمیز رویوں سے پہلے اسے سیاسی طور پر مستحکم کیا پھرافرادی طاقت اسکے سپرد کردی اور اب نفسیاتی برتری دلوادی اورپھرسوال کرتے ہیں کہ عمران خان کامقصد کیا ہے بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے مقاصد ڈھونڈنے کی بجائے حل کی ضرورت ہوتی ہے ظہیرالدین بابر جب پانی پت کی لڑائی سے لوٹا تو کافی عرصہ اس نے یہ سوچ کر گزاردیا کہ پانی پت کی لڑائی کا کیا مقصد تھا تب اس پرعقدہ کھلا کہ صرف طاقت اوربربریت کا اظہار کرنا مقصود تھا نیازی صاحب کے پاس کیا ایسی حکمت عملی ہے کہ وہ عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں اور بیس منٹ کا آپریشن بیس گھنٹوں تک لمبا ہوگیا۔عوام کے دلوں میں گھر کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے انکی ضروریات کاخیال رکھاجائے مہنگائی کابوجھ غریب پر اب مزید نہ ڈالیں سادگی کاطرز اپنائیں عوام کے دکھ کوسمجھیں عوام آپکی حفاظت کریگی اسپینسر کے نزدیک ریاست کے اندر ریاست کے محرکات تب پروان چڑھتے ہیں۔ جب عوام عدم اعتماد کاشکار ہوں تو وہ نجات دھندہ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ایک کہاوت ہے کہ ایک شخس جس درخت کی شاخ پر بیٹھا تھا اسی کوکاٹ رہا تھا ایک راھگیرپاس سیگزرا اور اس نے کہاکہ بیوقوف نیچے گرپڑوگے ابھی راہگیر چندقدم ہی دورگیاتھا کہوہ شخص دھڑام سے نیچے گر پڑا، وہ شخص بھاگم بھاگ راہگیر کے پاس گیا اور کہا کہ تمھیں کیسے پتہ چلاکہ میں گرپڑوں گا اور میں بیوقوف ہوں، راہگیر نے کہا کہ تمھاری پیشانی پر لکھا ہوا ہے کہ تم بیوقوف ہو۔ پیشانیوں پر تو ہمارے زوال کی داستان بھی قلمبند ہے لیکن ہم پڑھنانہیں چاہتے ایک مورخ نے لکھا کہ اندھے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ سیاسی اندھے اور عقل کے اندھے ۔ پہلی قسم کے لوگوں کو خطرات نظر تو آتے ہیں لیکن دیکھنا نہیں چاہتے اور ہنوز دلی دور است کی مصداق پر عمل کرتے ہیں دوسری کیٹگری میں عقل کے اندھے اجاتے ہیں ایک مزاح نگار کے نزدیک دوسری قسم کے لوگ خود بھی نقصان اٹھاتے ہیں اور دوسروں کا بھی کونڈا کرتے ہیں ،ایک اندھا فقیر گھر کی نکڑ پر مانگ رہاتھا ایک راہگیر نے اسکی طرف سکہ اچھال دیا اس نے کہاباؤ جی سکہ کھوٹا ہے، تمھیں کیسے پتہ چلا کہ سکہ کھوٹاہے تم تو اندھے ہو، فقیربولا میں اندھا ہوں لیکن عقل کا اندھانہیں، ہم میں سے کوئی دوسری کیٹگری میں فٹ نہیں بیٹھتا کیونکہ ہم اپنے نفع میں پورے ہیں ،نقصان تو مملکت خدادا کو پہنچ رہاہے اس طرف ہمارا کوئی دھیان نہیں ہے، کچھ تاریخی اندھے تاریخ کا حصہ رہے ہیں پرانے بادشاہوں کاوطیرہ تھاکہ وہ اپنے مخالفین کی آنکھوں اورکانوں میں پگھلا ہواسیسہ ڈال کرانہیں اندھااور بہرہ کردیتے تھے کہ وہ سن اور دیکھ نہ سکیں اور بادشاہ من مانیاں کرتیرہیں۔ ایک زمانہ ہوا،امیں نے کھوپڑیوں کے مینار کے نام سے ایک کالم لکھاکہ اورنگ زیب عالمگیر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا اس کے جواب میں کسی نے کالم نگارنے لکھا کہ جو حکمران اپنے باپ کے کانوں اور آنکھوں می سیسہ ڈلواکر اندھا کردے، بھائیوں کوقتل کردے ،جس کے دامن پر خون کے چھینٹیں ہوں ، وہ نیک کیسے ہوسکتا ہے۔ پھر اس بحث میں متعدد لوگ شامل ہوگئے اور بات کی تان یہاں پرٹوٹی کہ جب تک حکمران عوام کے دکھ کو نہیں سمجھے گا اسکا ترقی کے لئے اٹھنیوالا ہر قدم بیکار ہے بابائے تاریخ ہیروڈوٹس نے لکھاکہ ہمارے پاس کوئی مستند پیمانہ تونہیں کہ تاریخ کی صداقت کو پوری طرح جانچ سکیں اگر ہم پرانے زمانے کے بادشاہوں کودیکھیں تو وہ اپنے سامنے مورخ سے تاریخ لکھواتے تھے اور اگر کوئی بادشاہ کی مرضی کے خلاف ایک لفط بھی لکھ دیتاتھا تو اس کے ہاتھ شہر کی بڑی ڈسٹ بن میں پڑے ہوتے تھے ہیروڈوٹس نیتاریخ کی صداقت پر سوال اٹھاکر تاریخ میں فکشن کی گنجائش بھی رکھ چھوری ہے ایک سوال تو توشہ خانہ میں چوری کامعاملہ کا بھی زیربحث ہے مغلیہ دور میں بھی توشہ خانے تھے لیکن انکی حفاظت کے لئے چوبدار ہواکرتے تھے جو علی الصبح توشہ خانہ یں جھاڑو دیاکرتے تھے جس طرح اکبر اعظم خواجہ سلیم چشتی کے مزار پر جھاڑو دیا کرتا تھا مزاح نگار تویہ بھی لکھتا ہیکہ جھاڑو دینے میں اورپھیرنے میں فرق ہوتا ہے پہلی مرتبہ یہ فریضہ مرہٹوں نے سرانجام دیا اور رہی سہی کسر ہم نے پوری کردی.