پاکستان کی مایہ ناز شخصیت عوام دوست سیاستدان اور مفکر پیدائش 21 جنوری 1922ء 14مارچ 2020ء کو 98 سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر مبشر حسن یونیورسٹی آف انجینئرنگ لاہور میں پروفیسر رہے۔ انہوں نے عوام کی فلاح وبہود اور سیاسی شعور کیلئے لاہور میں ایک گروپ بنا رکھا تھا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے راقم کو بتایا کہ پی پی پی کے قیام سے پہلے حمید نظامی کی برسی کے سلسلے میں وائی ایم سی اے ہال لاہور میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ انہوں نے ڈاکٹر مبشر حسن کو ایک تعارفی خط دیا جسے لے کر وہ کراچی پہنچے اور ذوالفقار علی بھٹو کو اس تقریب کے مہمان خصوصی کے لئے دعوت دی۔ راقم بھی اس تقریب میں موجود تھا اور بھٹو صاحب سے ہاتھ ملایا۔ بھٹو صاحب نے اپنے خطاب کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔
Beautiful citizens of beautiful Lahore. خوبصورت لاہور کے خوبصورت شہریو! ڈاکٹر مبشر حسن نے اس تقریب میں خصوصی دلچسپی لی اور رش کی وجہ سے بھٹو صاحب کو ہال کے عقب سے سیڑھی لگا کر اتارا گیا۔ پروفیسر مہدی حسن نے بتایا کہ ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر ماہانہ نشستیں ہوتی تھیں جن میں لاہور کے دانشور نئی سیاسی جماعت کے قیام کے بارے میں غوروفکر کرتے تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے جے اے رحیم کے ذریعے بھٹو صاحب سے رابطہ کیا۔ جے اے رحیم ڈاکٹر مبشر حسن آئی اے رحمن اور پروفیسر مہدی حسن نے پی پی پی کا منشور اور اساسی دستاویزات تیار کرنے میں کردار ادا کیا۔ جنرل ایوب خان کے خوف کی وجہ سے کوئی ہوٹل کنونشن کیلئے ہال دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر پی پی پی کا پہلا تاسیسی کنونشن ہوا۔ ڈاکٹر صاحب پی پی لاہور کے پہلے صدر نامزد ہوئے اور 1970ء کے انتخابات میں لاہور سے ایم این اے منتخب ہونے کے بعد بھٹو صاحب کی پہلی کابینہ میں وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب سرتا نظریاتی اور عوامی لیڈر تھے۔ انہوں نے 1974ء میں اصولی اور نظریاتی اختلاف کی بنا پر وزارت سے استعفیٰ دے دیا البتہ چند ماہ بعد وہ وزیر اعظم کے مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی بن گئے۔ ڈاکٹر صاحب امانت دیانت اور صداقت کا پیکر تھے۔ سٹوڈنٹ شاہنواز بھٹو نے وزارت خزانہ سے سو ڈالروں کے زرمبادلہ کی اجازت مانگی۔ ڈاکٹر صاحب نے اجازت دینے سے انکار کردیا جب یہ فائل وزیراعظم کے پاس پہنچی تو انہوں نے وزیر خزانہ سے اتفاق کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے مشیر کی حیثیت سے کہوٹہ لیبارٹری کے قیام اور مالیاتی امور کیلئے خصوصی کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک خصوصی سیل بناکر کر لاہور کی کچی آبادیوں کی ترقی کیلئے شاندار خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اپنے گھر پر کارکنوں کی سیاسی تربیت کیلئے سٹڈی سنٹر قائم کیا جس میں لاہور اور دوسرے اضلاع کے کارکن تربیتی کورس مکمل کرتے۔ ڈاکٹر صاحب نے پارٹی کارکنوں کو مینول ورک یعنی ہاتھ سے کام کرنے کی تربیت بھی دی ۔ مجھے یاد ہے کہ پارٹی کارکنوں نے ڈاکٹر صاحب کی رہنمائی میں اچھرہ سے ملتان روڈ تک گندے نالے کی صفائی کی۔
بھٹو صاحب نے ڈاکٹر مبشر حسن کو 1977ء کے انتخابات سے پہلے پی پی پی کا سیکرٹری جنرل نامزد کردیا۔ حیران کن طور پر انہوں نے انتخابات میں حصہ نہ لیا۔ وفاقی وزیر رفیع رضا نے بھٹو صاحب کو انتخابات کے بعد کا منظر نامہ بتا دیا تھا اور ان کو خبردار کیا تھا امریکہ کہ ان کو دوبارہ اقتدار میں نہیں رہنے دیگا لہٰذا وہ انتخابات ملتوی کر دیں۔ بھٹو صاحب نے انکے مشورے پر عمل کرنے سے انکار کر دیا باخبر افراد کا خیال ہے کہ ڈاکٹر مبشر حسن کو بھی اس منظر نامے کے بارے میں علم تھا۔ انہوں نے پی این اے کی تحریک کے دوران سیکرٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جس کی وجہ سے بہت سی افواہیں پھیلنے لگیں۔ بھٹو صاحب نے اپنے ایک بیان میں وضاحت کی کہ ڈاکٹر مبشر حسن نے اصولی اور نظریاتی بنیاد پر استعفیٰ دیا ہے اور وہ ان سے مطالبہ کر رہے تھے کہ جاگیرداروں کو پارٹی سے نکال دوں۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پی پی پی کا ترجمان اخبار مساوات بند کر دیا۔ راقم نے پی پی پی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے "عوام دوست " کے نام سے ہفت روزہ جاری کیا جسے خفیہ تقسیم کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان " تین تختے الٹ دو "تھا جب پارٹی کے جیالے یہ پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے گرفتار ہوئے تو ڈاکٹر مبشر حسن کو بھی شاہی قلعے میں قید رکھا گیا۔ ڈاکٹر صاحب ہیومن رائٹس پاکستان کے بانی اراکین میں شامل تھے، انہوں نے انسانی حقوق کیلئے شاندار خدمات انجام دیں۔ ڈا کٹر صاحب نے پاک انڈیا فورم برائے امن اور جمہوریت بھی تشکیل دیا۔ انہوں نے اس پلیٹ فارم سے پاک بھارت عوام کے درمیان دوستی کیلئے یادگار کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مالی وسائل کے باوجود سادگی اور کفایت شعاری کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ انکے قریبی دوست برادرم افتخارالحق بتاتے ہیں کے ایک بار ڈاکٹر صاحب کو ٹریفک کانسٹیبل نے روک لیا اور کہا کے آپ نے ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کی ہے، ڈاکٹر صاحب نے اسے کہا کہ چالان کر لو اس نے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے کہا آجکل تو میں کچھ نہیں کرتا البتہ میں بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیرخزانہ رہا ہوں۔ کانسٹیبل نے ڈاکٹر صاحب کی ٹوٹی ہوئی کار فوکس ویگن دیکھ کر ان کو سلام کیا اور کہا آپ چلے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سے پوچھا کہ پہلے تم میرا چالان کر رہے تھے اب سلام کر رہے ہو اس نے جواب دیا کہ میں نے آپکے کپڑوں اور گاڑی سے اندازہ لگا لیا ہے کہ آپ نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے کوئی مال نہیں بنایا۔ ڈاکٹر صاحب نے کئی کتابیں اور کتابچے قلمبند کیے۔ انہوں نے ایک کتاب" شاہراہ انقلاب" لکھی جس میں محروم غریب اور بے بس عوام کو عوامی انقلاب کا پیغام دیا، ان کی دوسری اہم کتاب Mirage of power یعنی " طاقت کا سراب" ہے جس میں انہوں نے ثابت کیا کہ منتخب وزیر اعظم کے پاس کوئی طاقت اور قوت نہیں ہوتی اور اختیارات کے مرکز اور محور جرنیل اور بیوروکریٹس ہوتے ہیں۔ نظریاتی اور انقلابی لیڈر فرخ سہیل گوئندی نے بتایا کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے دو ہفتے قبل ملاقات کرکے اپنی تحریک "جمہوری خلق" کے بارے میں بتایا جو عوام کے آئینی حقوق کی بازیابی کیلئے چلائی جارہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس تحریک کی تائید اور حمایت کی۔ ڈاکٹر مبشر حسن طویل عرصہ پی پی پی بھٹو شہید گروپ کے گروپ پنجاب کے صدر بھی رہے۔ وہ عوامی حقوق کے بارے میں کتبے لیکر لاہور کے مختلف گلی کوچوں اور مارکیٹوں کا دورہ کرتے رہے اور لوگوں کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ عوام کی بالا دستی کے بہت بڑے علمبردار تھے، انکی سرگرم پرجوش اور فعال زندگی پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جانا چاہئے۔ انکی شخصیت سیاست اور کردار پر ایک کتاب لکھی جانی چاہئے جس سے پاکستان کے نوجوان عوامی نظریاتی سیاست کے گر سیکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے انکے درجات بلند کرے ان کی شخصیت ہر لحاظ سے منفرد اور بیمثال تھی۔ ایک شعر ڈاکٹر صاحب کی نذر کرتا ہوں۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
٭…٭…٭
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024