بدھ‘ 22 ؍ رجب المرجب ‘ 1441ھ ‘ 18 ؍ مارچ 2020 ء
بھارتی فوج کا سرینگر سے مشہور سنگ باز کی گرفتاری کا دعویٰ
حیرت کی بات ہے جب سارا شہر ہاتھوں میں پتھر لئے ہو تو صرف ایک بے گناہ کو بھارتی پولیس اپنی خفت مٹانے کے لئے مطلوب ترین سنگ باز کہہ کر گرفتار کر کے اپنی نیکی میں کونسا اضافہ کر رہی ہے۔ اس وقت تو عملاً سارا کشمیر …؎
تو نے جب سے مجھے ’’غلام‘‘ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
سنگباز بنا بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔ سرینگر تو خاص طور پر سنگ باری کے لئے مقبول ترین شہر بن چکا ہے جس کے گلی کوچے گواہی دیتے نظر آتے ہیں کہ یہاں معرکہ بلا کا رہا ہے۔ سنگ بدست نہتے کشمیری مسلح بھارتی فوجیوں کے مقابلے میں ایسی سنگ باری کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے آسمان سے کسی بدترین قوم پر پتھر کی بارش ہو رہی ہے۔ اب 30 لاکھ کی آبادی میں سے اس مشہور (بقول بھارتی پولیس) نوجوان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرنے والے ان پولیس ملازمین کو تو بھارتی حکومت کی طرف سے ’’ویر چکر ‘‘ ملنا چاہئے ، جنہوں نے 7 ماہ مسلسل کرفیو لگا کر شہر کا لاک ڈائون کر کے ریت میں سے سوئی نکالی ہے۔ نو لاکھ بھارتی فوجی اور پولیس کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ ایسے لغو دعوے کر کے خود اپنی جگ ہنسائی کا سامان کر رہی ہے۔ تمام تر سفاکیت اور مظالم کے باوجود نہتے کشمیری شہر و دیہات میں پتھروں سے بھارتی غاصب افواج کا استقبال کرنے سے باز نہیں آتے۔
٭٭٭٭٭
آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں 100 فیصد اضافے کا امکان
ابھی نیا بجٹ آنے میں ایک دو ماہ باقی ہیں۔ اب اس طرح کے خوش آئند بیان سے تو سرکاری ملازمین میں خوشی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ وہ حق بجانب ہوں گے کہ اپنے تصورات میں امیدوں کے دامن تلے گھی کے چراغ روشن کریں۔ بس خیال رہے کہ یہ اضافہ بھی پٹرول کی قیمتوں میں کمی والی خوشی کی طرح نہ ہو کہ اعلان 10 روپے ہوتا ہے اور کمی صرف ایک یا دو روپے ہوتی ہے۔ اب کہیں سرکاری ملازمین کے ساتھ بھی یہی کچھ نہ ہو اور ان کی امیدوں پر اوس پڑ جائے اور یہ اضافہ ملتے ملتے 2 فیصد تک رہ جائے۔
اب دیکھنا ہے امیدوں کا لگایا یہ بوٹا بجٹ کے اعلان پر ہرا بھرا ہوتا ہے یا مرجھا جاتا ہے جو ہو گا وہ تو دیکھا جائے گا۔ مگر اس کا ردعمل زلزلے کے آفٹر شاکس کی طرح خوفناک ہو سکتے ہیں کیونکہ سرکاری ملازمین اب 100 فیصد اضافہ کی امید لگا کر کسی صورت اس سے کم پر راضی نہ ہوں گے۔ اگر بجٹ میں یہ اضافہ نہ ہوا تو وہ ملک بھرمیں ہائے ہائے کے نعرے لگاتے حکومت کے خلاف سڑکوں پر سیاپا کرتے نظر آئیں گے۔ اس صورتحال سے حکومت کس طرح عہد براہ ہو گی معلوم نہیں۔ اس لئے ایسا دعویٰ کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ جس پر عمل کرنا مشکل ہو۔
٭٭٭٭٭
امریکہ اور جرمنی میں کرونا ویکسین کی تیاری پر کشمکش
خبر یہ ہے کہ ایک جرمن کمپنی کرونا سے تحفظ کی ویکسین کی تیاری میں مصروف ہے اور جلد ہی دوا تیار ہو کر مارکیٹ میں آئے گی۔ دوسری طرف امریکی صدر بھی اسی ہفتے کرونا سے بچائو والی ویکسین یعنی دوا بازارمیں لانے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔ اطلاع تو یہ بھی ہے کہ امریکی صدر نے اس جرمن سائنسدان کو جو یہ دوا تیار کر رہا ہے۔ اس دوا کا فارمولا خریدنے کیلئے بھاری معاوضے کی پیشکش بھی کی ہے مگر اس سائنسدان نے دوا کا فارمولا بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ یوں اب کہیں دو ملائوں میں مرغی حرام والی کیفیت نہ پیدا ہو جائے۔ دنیا کے لوگ اس وقت کرونا سے بچائو کی دوا بنا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ جعلی دوا فروخت کر کے نیک نامی کما رہے ہیں۔ کراچی میں ایک جعلی ڈاکٹر کرونا کے علاج کی جعلی دوا بیچتے ہوئے گرفتار ہوا ہے۔
انڈونیشیا والے چن چن کر چمگادرڑوں کو مار رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے یہ وائرس انسانوں میں پھیلا ہے ۔ الفرض دنیا بھر میں حفاظتی تدابیر ہو رہی ہیں۔ ہمارے ہاں ایران سے آنے والے زائرین اس مرض کے پھیلائو کا بڑا سبب بن رہے ہیں۔ حکومت کے پاس ان کی تشخیص کی مطلوبہ سہولت نہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کہتے ہیں کہ 5 ہزارافراد کو تشخیصی عمل سے گزارنا آسان نہیں تھا۔ کیا تفتان میں زائرین کو بڑے سٹوروں میں چیزوں کی قیمت چیک کرنے والے الیکٹرانک آلے سے چیک کیا جا رہا ہے وہ مریض سندھ میں پکڑے جا رہے ہیں جو تفتان سے آئے تھے۔ صاف ظاہر ہے بلوچستان میں صحیح تشخیص نہیں ہو رہی۔ وہاں ڈاکٹر ایکسپائر ڈیٹ والی کٹوں کا رونا رو رہے ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ افغانستان کی طرح ایران بارڈر بھی مکمل بند رکھا جائے ورنہ بلوچستان میں کرونا بم پھٹ پڑا تو پوراملک متاثر ہو گا۔
٭٭٭٭٭
وہاڑ ی میں ایس ایچ او کی مہندی پر مجرا ، سینکڑوں افراد شریک
پورے ملک میں اس وقت عوامی اجتماعات پر پابندی ہے۔ 5 سے زیادہ افراد جمع نہیں ہو سکتے۔ مگر آفرین ہے قانون پر عملدرآمد کرانے والوں پر کہ وہ خود کو قانون کی پابندیوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ اس ہنگامی صورتحال میں جب لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے گھبراتے ہیں ۔ وہاڑی میں ایک پولیس والے کی مہندی کی تقریب میں طبلے کی تھاپ پر گھنگھروئوں کی چھن چھن میں رات گئے سینکڑوں افراد کی موجودگی میں تمام حکومتی پابندیاں اور احکامات ہوا میں اڑائے گئے۔ سینکڑوں افراد کی موجودگی میں مجرے کی رنگین رات دیر تک جاری رہی۔
ایس ایچ او کے دوستوں اور احباب نے دل کھول کر ناچنے والیوں پر نوٹ لٹائے۔ یہ صورتحال بتاتی ہے کہ قانون کے محافظ قانون پر کتنا عمل کرتے ہیں۔ اگر یہ کسی عام شہری کی مہندی ہوتی تو چندمنٹوں میں پولیس وہاں دھاوا بول چکی ہوتی اور دولہا مہمانوں سمیت کسی حوالات میں شب بسری کرتا نظر آتا۔ سلامی کے سارے نوٹ پولیس والے آپس میں تقسیم کر کے مزید رقم طلب کر رہے ہوتے تاکہ مک مکا یا کیس ہلکا درج کیا جائے۔ اب اطلاع تو یہی ہے کہ مہندی لگے ہاتھوں والے ایس ایچ او کو معطل کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔