پیر ‘ 10 ؍ رجب المرجب ‘ 1440ھ‘ 18؍ مارچ 2019ء
حکومتی اتحاد کے ہررکن اسمبلی کے لیے 15 کروڑ یوٹرن نہیں نوسر بازی ہے۔ مشاہد اللہ خان
حکومت کی طرف سے اپنے ارکان اسمبلی کو نوازنے کی یہ روایت جو قائم کی جا رہی ہے وہ حکومت کے خاتمے کے بعد کہیں موجودہ حکمرانوں کے خلاف کسی کیس کی بنیاد نہ بن جائے۔ اس لیے مشتری ہوشیار باش۔ ترقیاتی فنڈز پر سب کا حق ہوتا ہے۔ اسمبلی میں بیٹھے یہ تمام کمائو پوت عوام سے ووٹ لے کر یہی حق وصول کرنے کے لیے ہی تو اسمبلیوں میں آتے ہیں۔ ورنہ کس کوکیا پڑی کہ آرام سکون چھوڑ کر صرف ایم این اے یا ایم پی اے کی تختی لگوانے کے شوق میں کروڑوں روپے خرچ کر کے الیکشن لڑے۔ جب تک وہ لگائی رقم سود سمیت واپس نہ لے لیں انہیں نہ دن کو چین ملتا ہے نہ راتوں کو آرام نصیب ہوتا ہے۔ اب اگر انہیں اصل زر بھی واپس وصول نہ ہوا تو شور مچانا ان کاحق بنتا ہے۔ حکومت خود ہی ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کر دیکھے ان ارکان اسمبلی پر کیا گزرتی ہو گی جن کے سامنے ان کے مخالفوں کو 15,15 کروڑ روپے مل رہے ہوں اور وہ صرف دیکھتے رہ گئے ہوں۔ ایسا کرنا مناسب نہیں۔ ان بے چاروں کی حالت زار پر ہی ترس کھایا جائے۔ چو پڑی اور وہ بھی دو دو نہ سہی چلیں کم از کم ایک ہی دے کر ان کی اشک شوئی کی جائے۔ حکومت اب اتنی بھی کٹھور نہ بنے۔ سب فنڈز کے طالبوں سے یکساں سلوک کرے۔ ورنہ وہ سب جنہیں حصہ نہیں ملا سڑکوں پر بازاروں میں حتیٰ کہ ڈی چوک میں بھی عوام سے ان کاحصہ چھینے جانے کی شکایت کچھ اس طرح کرتے نظر آئیں گے گویا حکومت نے ان کا نہیں عوام کا حق مارا ہے۔
٭٭٭٭٭
محکمہ خزانہ پنجاب نے دفاتر میں کھانسنے اور خارش کرنے پر پابندی لگا دی
یہ عجیب منطق ہے۔ بھلا کھانسنے اور خارش کرنے پر کسی کا اختیار ہوتا ہی کب ہے۔ مریض یا بیمار بے چارہ کھانسے نہیں تو کیا گانا گائے۔ اس طرح جسے خارش ہو رہی ہو وہ خارش نہ کرے تو کیا ڈانس کرے گا۔ اوپر سے محکمہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس سے کام میں خلل پڑتا ہے اس لیے کھانسی اور خارش میں مبتلا افراد چھٹی لے کر گھر میں آرام کریں۔ دفتر میں آ کر کام میں حرج کا باعث نہ بنیں۔ خدا جانے کھانسنے اور خارش کرنے سے کام میں کونسا حرج ہوتا ہے۔ یہ دونوں بے چارے چند لمحوں یا منٹوں میں رفع ہو جاتے ہیں۔ طبیعت بحال ہو جاتی ہے مگر افسوس اب سرکاری ادارے خود ملازمین کو کام چوری اور چھٹی کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو جناب جلد ہی سارے محکمہ اس قسم کے آڈر جاری کرتے نظر آئیں گے۔ اب ضروری تو نہیں دفتر میں کام کرنے والے کلرک اسسٹنٹس یا سپرنٹنڈنٹ ہی بیمار ہوں۔ خود صاحب کا بھی جب دل چاہے گا وہ کھانسی یا خارش کا بہانہ کرکے بیڈ ریسٹ لیتے نظر آئیں گے۔ پہلے ہی کون سے دفتر میں ایمانداری سے کام ہوتا ہے جو اب چھٹی کا بہانہ ملنے کے بعد دفتر والے بابو دفتروں میں نظر آئیں گے۔ اس لیے افسران اس قسم کے عالمانہ اور فاضلانہ قسم کے احکامات جاری کرنے سے پرہیز ہی کریں تو بہتر ہے۔ اگر کرنا ہی ہے تو پھر زکام اور چھینکوںکو بھی یاد رکھیں وہ بھی اسی قسم میں شامل ہیں۔ اس میں مبتلا افراد چھٹی کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں۔ انہیں کیوں محروم رکھا گیا۔
٭٭٭٭٭
اپریل میں دھرنا دینے کا ارادہ نہیں۔ فضل الرحمن
نجانے کیا بات ہے ہمارے سیاستدان آہستہ آہستہ حالات کے آگے سپرڈال رہے ہیں۔ کہاں وہ مولانا جو ناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ کہاں یہ مولانا کہ اب حکومت کو ڈھیل دینے آمادہ نظر آتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس وقت سب اپوزیشن جماعتیں نیب کے زیر عتاب ہیں۔ مسلم لیگ ن گردن تک اور پیپلز پارٹی اب کمرتک پھنس گئی ہے۔ ان حالات میں مولانا نہیں چاہیں گے کہ وہ بھی گوڈوں تک اس چھان بین کے دلدل میں پھنس جائیں۔ ابھی تک وہ واچ لسٹ میں شامل ہیں جس طرح پاکستان گرے لسٹ میں شامل ہے۔ مولانا کوجو رعاتیں یعنی چھان بین سے تحفظ ملا ہے اسی بدولت ملا ہے۔ جس دن انہوں نے دھرنا مارچ کا اعلان کیا اس کے ساتھ ہی ان کا نام بھی بلیک لسٹ میں آ جائے گا اور پھر تحقیقاتی ادارے تیسری بڑی اپوزیشن طاقت کے بارے جو نت نئے مسرت شاہین کے ٹھمکوں کی طرح انکشافات کرتے نظر آئیں گے۔ وہ عوام کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہوں گے۔ شاید اس خوف سے مولانا بھی خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہیں اور صرف اسلامی کانفرنسوں اور پاکستان کانفرنسوں پر سارا زور لگا رہے ہیں تاکہ عوام کو وہ مصروف نظر آئیں اور ان کی سیاسی فراغت کا کسی کو شبہ بھی نہ ہو۔ ویسے بھی اپریل کے بعد مئی جون میں روزے ہوں گے ۔ گرمی کا زور بھی جو جولائی اگست ستمبر تک چلے گا، سو حکومت ان کی طرف سے 6 ماہ اطمینان ہی رکھے اور اپنا کاروبار جاری رکھے۔
٭٭٭٭٭
متحدہ عرب امارات کسی ملک کو تیل ادھار نہیں دیتا۔ ہمیں بھی نہیں دے گا۔ اسد عمر
تیل کی قیمتوں میں ہر ماہ مسلسل اضافہ سے پریشان پاکستانی اس اُمید پر خوش تھے کہ جلد ہی متحدہ عرب امارات سے ادھار تیل کی فراہمی شروع ہونے کے بعد تیل کی قیمت میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور ہو گی مگر افسوس ’’دو چار ہاتھ آ کے لب بام رہ گیا‘‘ والی بات سچ ثابت ہو گئی۔ ہمارے وزیر خزانہ نے ایک اور یوٹرن والی خبر سنا دی اور سارا مزاغارت کر دیا۔ اب موصوف فرما رہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کسی کو تیل ادھار نہیں دیتا اس لیے ہمیں بھی نہیں دے گا تو جناب پہلے کیا آپ سو رہے تھے۔ پہلے کیا آپ کو امارات کی پالیسیوں کا پتہ نہیں تھا۔ اگر تھا تو اس وقت بولے کیوں نہیں‘ جب یہ افواہ زوروں پر تھی۔ اب اگر موصوف یہ کہیں کہ مجھے پتہ نہیں تھاتو ایسے دانا شخص کو وزیر خزانہ کیوں بنایا گیا جو دوسرے ممالک کی معاشی پالیسیوں سے آگاہ نہیں۔ اب جو ہونا تھا وہ ہو گیا اور جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ نجانے کیوں خوف آ رہا ہے کہ جلد ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی حد تک زرداری دور ایک بارپھر لوٹ کر آنے والا ہے۔ اسے نیرنگی دوراں کہیں یا لکھت پڑھت کی کمی۔ معیشت کو سنبھالتے سنبھالتے کہیں ہم خود نہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مار دیں ذرا ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین معاشیات کو بھی اور وزیر خزانہ کو بھی عوام زیادہ دیر تک تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو والی پالیسی پر عمل پیرا نہیں رہ سکتے۔
٭٭٭٭٭