چین کیساتھ تعلقات امریکی تحفظات کا باعث نہیں بنیں گے: شاہد خاقان
واشنگٹن(اے این این‘ صباح نیوز ) وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی امریکی نائب صدر سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں ،دوطرفہ تعلقات ،خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی چار روزہ نجی دورے پر امریکہ میں ہیں جہاں انہوں نے اپنی علیل بہن کی عیادت کے ساتھ امریکہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی نے غیر متوقع طور پر امریکی نائب صدر مائیک پینس سے ملاقات کی اور افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے تنازعات کا حل تلاش کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ملاقات پاکستان کی درخواست پر امریکی نائب صدر کے گھر پر ہوئی اور یہ 30 منٹ تک جاری رہی اور اس ملاقات میں پینس کے خصوصی مشیر برائے جنوبی ایشائی امور مائیکل کٹرون نے بطورنوٹ ٹیکر شرکت کی، تاہم ان کے علاوہ کوئی بھی امریکی یا پاکستانی عہدیدار دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے دوران موجود نہیں تھا۔وزیر اعظم اور امریکی نائب صدر کے درمیان ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے افغانستان پر اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی۔ذرائع کا کہنا تھا شاہد خاقان عباسی کی جانب سے پینس کو افغانستان میں امن کی کوششوں کے لیے پاکستان کے مخلصانہ کوششوں کے عزم کی یقین دہانی کرائی۔ ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں کو تسلیم کرنے پر بھی زور دیا۔ذرائع نے بتایا وزیر اعظم نے امریکی رہنما کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان سے زیادہ کوئی دوسرا ملک افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں ہے کیونکہ اس امن سے براہ راست پاکستان کو فائدہ ہوگا۔نجی ٹی وی کے مطابق امریکی نائب صدر نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو سراہا تاہم پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ پر تحفظات کا اظہار کیا ۔اس بارے میں واشنگٹن میں موجود سرکاری ذرائع کا کہنا تھا اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات جاری رکھنے کا اظہار کیا گیا جبکہ ایک ذرائع کا کہنا تھا پاکستان کی جانب سے درخواست کی گئی کہ امریکی نائب صدر سے ایک اور ملاقات ضروری ہے کیونکہ گزشتہ ملاقات میں معاملات کو آگے بڑھانے پر بات ہوئی تھی۔اس کے علاوہ ایک اور ذرائع کا کہنا تھا حال ہی میں ہونے والی مثبت پیشرفت نے پاکستان کی ایک اور ملاقات کی کوشش کو اجاگر کیا اور اس حوالے سے دونوں اطراف کے سول اور عسکری حکام کے مختلف بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا افغانستان میں امن کے لیے پاکستان نے کچھ مثبت اقدامات اٹھائے تھے جبکہ امریکی حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ واشنگٹن کی خواہشات کے تحت پاکستان افغان مصالحتی عمل میں طالبان کو حصہ لینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔پاکستان کو ملاقات کی ضرورت پیش کیوں آئی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر پاکستان کے غیر سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے بیانات میں تبدیلی کا آغاز ہوا تھا اور پاکستان جتنا کرسکتا تھا اس نے کیا تھا اور اب دوسروں کے لیے مواقع کھلے ہیں۔انہوں نے کہا دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر رابطے جاری ہیں اور کسی اور چیز پر توجہ رکھنا مشکل ہے لیکن افغانستان پر نہیں اور پاکستان اور امریکہ اس معاملے سمیت دو طرفہ تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کررہے ہیں۔تاہم ذرائع کا کہنا تھا وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ یہ کہہ سکیں اس ملاقات کے کوئی ٹھوس نتائج برآمد ہوں گے لیکن وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملاقات مستقبل کے منصوبوں پر بحث کے مقابلے میں پیش رفت کے جائزے اور نیک نیتی کے اظہار سے زیادہ تھی۔بعد ازاں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کانگریس رکن ٹیڈ یوہو اور بریڈ شیرمین سے بھی ملاقات کی۔نجی ٹی وی کے مطابق اس ملاقات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مائیک پینس کی طرح امریکی قانون سازوں نے بھی افغانستان کی موجودہ صورتحال پر توجہ مرکوز رکھی لیکن ساتھ ہی انہوں نے پاکستان میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے دونوں قانون سازوں نے پاکستان میں مسیحی افراد کے خلاف توہین مذہب کے کیس پر تحفظات کا اظہار کیا۔اس ملاقات کے حوالے سے پاکستانی اور کانگرس کے ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات امریکہ کے تحفظات کا باعث نہیں بنیں گے اور اسلام آباد امریکہ اور چین دونوں سے دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔ مقامی ہوٹل میں ہونے والی یہ ملاقات 45منٹ تک جاری رہی۔اس موقع پر پاکستانی سفارتخانے کے عہدیدار بھی موجود تھے۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب رواں برس یکم جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان مخالف ٹوئٹ کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات تنا ئوکا شکار ہیں۔
شاہد خاقان
اپر لیڈ
ق