کیا کریں حالت سیاست کی بیاں
چل پڑی ہیں اب تو جوتا باریاں
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سیاسی جلسہ گاہوں میں جوتا باریوں کے ایسے ایسے مناظر دیکھنے میں آئے کہ سیاسی حالت پر دل میں بہت سے اشعار مچلنے لگے۔ ایک شعر سے تو کالم کا آغاز کیا گیا ہے۔ آگے چل کر کچھ اور اشعار بھی اس کالم کا حصہ بنیں گے۔ سیاسی میدان میں جوتا باری بہت سال پہلے امریکہ سے آغاز پذیر ہوئی تھی۔ ایک جلسے سے امریکی صدر خطاب کر رہے تھے کہ حاضرین میں سے ایک شخص نے امریکی صدر کی طرف جوتا اچھالا۔ جو امریکی صدر اور ساتھ کھڑے ایک وزیر کو جا لگا۔ اس کے بعد بہت سے ممالک میں جوتا باریاں دیکھنے میں آئیں اور اب یہ سلسلہ ہمارے پیارے وطن پاکستان میں شروع ہو گیا ہے
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
بات جوتا باریوں کی ہو رہی تھی۔ گیارہ مارچ کو سابق وزیراعظم نواز شریف جامعہ نعیمیہ میں آئے اور ایک تقریب میں خطاب کے لئے کھڑے ہوئے۔ ان کے ساتھ ہی مذکورہ جامعہ کے سربراہ راغب نعیمی بھی کھڑے تھے۔ اچانک حاضرین میں سے ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر اپنا جوتا نواز شریف کی طرف پھینکا۔ یہ جوتا نواز شریف کے کندھے پر لگا اور پھر اچھل کر راغب نعیمی کے قریب سے گزرتا ہوا پچھلی طرف کھڑے ایک آدمی کو جا لگا۔ اسی دن فیصل آباد میں عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ بڑھک لگائی کہ وہ برسر اقتدار آ کر رانا ثناءاللہ کو مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالیں گے۔
جلسہ ختم ہونے پر جب عمران خان اپنی کار میں بیٹھ گئے تو اچانک ایک شخص نے جس کے ہاتھ میں جوتا تھا، گاڑی کا دروازہ کھول کر عمران خان کو جوتا مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ گاڑی کے قریب کھڑے تحریکیوں نے اسے پکڑ لیا اور اس کی پٹائی کر دی۔ پٹائی کے بعد اس شخص نے بتایا کہ رانا ثناءاللہ کو مونچھوں سے پکڑ کر جیل بھجوانے کی اشتعال انگیز بات سن کر رانا ثناءکے داماد نے مجھے ہدایت کی کہ میں عمران خان کو جوتا ماروں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے اپنے کالم نیام حرف میں لکھا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو تقدیم حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی بیانئے اور مخاطبے میں غیر شائستگی کو رواج دیتے ہوئے کسی مخالف کا نام بھی عزت سے نہ لینے کا گویا حلف اٹھا رکھا ہے۔
ان کی دیکھا دیکھی مخالف سیاستدانوں اور کارکنان نے بھی یہی روش اختیار کر لی ہے۔ نتیجہ یہ کہ سیاسی مخالفین پر سیاہی اور جوتے پھینکے جانے لگے ہیں۔ اور خواتین کے ساتھ بدتمیزی ہونے لگی ہے۔ اس کے بعد گجرات میں ایک جلسے کے دوران عمران خان پر جوتا پھینکا گیا۔ اس تحریر کے دوران ایک جوتا کاری کا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ 24 فروری کو وفاقی وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال نارووال میں ایک ورکرز کنوشن سے خطاب کر رہے تھے کہ خطاب کے دوران ایک نوجوان نے ان پر جوتا پھینک دیا۔ سیاسی رہنماﺅں پر جوتا باریوں کے یہ مناظر تمام ٹی وی چینلز پر بار بار دکھائے جاتے رہے۔ جو کہ سیاسی رہنماﺅں کی پگڑیاں اچھالنے کے مترادف تھا۔ ٹی وی چینلز پر بار بار یہ مناظر دیکھ کر ہم مندرجہ قطعہ کہنے پر مجبور ہو گئے۔
لیڈروں کی سب اچھالی جا رہی ہیں پگڑیاں
رہنماﺅں کی ہے باقی اب کوئی عزت کہاں
سارے جلسوں میں چلائی جا رہی ہیں جوتیاں
آ گئی ہیں اب سیاست میں بھی جوتا باریاں
اب آتے ہیں پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری کی طرف۔ آصف زرداری صاحب اپنی چالاکیوں اور مکاریوں کی وجہ سے آج تک احتسابی عمل سے بچے ہوئے ہیں۔ زرداری صاحب اپنے والد کے سینما پر ٹکٹیں بلیک میں فروخت کیا کرتے تھے۔ پھر ان کی سیاسی لاٹری نکل آئی اور ان کی شادی بینظیر بھٹو سے ہو گئی۔ اس طرح ان پر کالی زرکاریوں کے دروازے کھل گئے۔
چند برس قبل امریکی پارلیمنٹ میں کرپٹ سیاستدانوں کی ایک فہرست پیش کی گئی تھی۔ اس میں زرداری صاحب کی جائیدادوں اور بنک اکاﺅنٹس کی بھی تفصیلات تھیں۔ ان میں بتایا گیا تھا کہ جنوبی افریقہ، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دوبئی میں فارم ہاﺅس کوٹھیاں اور فلیٹس زرداری صاحب کی ملکیت ہیں اور ساتھ ہی دنیا کی پچیس سے زائد کمپنیوں کی فہرست بھی تھی۔ ان کمپنیوں میں زرداری کے لاکھوں ڈالرز کے حصص بھی لکھے ہوئے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ آصف زرداری پاکستان کے صدر بن گئے۔ صدر بننے سے قبل ان کے بارے میں کالی زرکاریوں کا ایک کیس ایک خصوصی عدالت میں چل رہا تھا۔ پورے چھ سال تک یہ کیس عدالت میں لگنے نہیں دیا گیا۔ اس دوران زرداری صاحب نے کیس کی فائل میں سے اصل دستاویزات غائب کروا دیں اور ان کی جگہ فوٹو کاپیاں لگوا دیں۔ زرداری کی صدارت ختم ہونے کے بعد جب یہ کیس عدالت کے سامنے پیش ہوا تو اس کیس کو اصل دستاویزات کے بجائے فوٹو کاپیاں، ریکارڈ پر ہونے کی وجہ سے خارج کر دیا گیا۔ اس طرح زرداری صاحب کالی زرکاری کے مقدمہ سے ”باعزت“ بری ہو گئے۔ اس طرح وہ اپنی چالاکی کی وجہ سے عوامی جوتا باری سے بچ گئے۔ عین ممکن ہے کہ کسی جلسے میں وہ جوتا باری کی زد میں آ جائیں....
کھل گئے ہیں بھید زرکاری کے سب
لیڈروں کی ہے کوئی عزت کہاں
سارے جلسوں میں یہاں پر آج کل
چل رہی ہیں اب تو جوتا باریاں
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024