اسلام آباد (رائٹرز) پاکستان کے شمالی علاقوں میں دہشت گردی کیخلاف کارروائیوں کے باعث بے گھر ہونیوالے افراد کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ حالیہ برسوں میں بے گھر ہونیوالے 53 لاکھ آئی ڈی پیز میں سے 10 لاکھ افراد اب بھی اپنے گھروں کو واپسی کے منتظر ہیں۔ امدادی سامان کی قلت، تباہ ہو جانے والے انفراسٹرکچر اور دہشت گردوں کے حملوں کے خطروں کے باعث 10 لاکھ آئی ڈی پیز کی واپسی کا معاملہ تاخیر کا شکار ہے۔ لوگ گھروں کو واپسی کے معاملے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور مہاجر کیمپوں یا شہروں میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا آئی ڈی پیز کی واپسی کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے۔ ہمیں خود کو اور پوری دنیا کو دہشت گردی کے خطرے سے بچانے کے لئے یہ کام کرنا ہے۔ 40 لاکھ سے زائد افراد واپس جا چکے ہیں اور حکومت نے باقی 10 لاکھ افراد کو بھی 2016ء کے آخر تک گھروں کو واپس پہنچانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ امریکہ، چین سمیت عالمی ڈونرز کے تعاون سے تباہ ہونے والی سڑکوں، نکاسی آب کے نیٹ ورکس، مارکیٹوں، سکولوں، ہسپتالوں کی دوبارہ تعمیر کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔ عبدالقادر بلوچ نے کہا ہم دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کو دئیے جانے والے امدادی پیکج کی طرز کا منی مارشل پلان لانچ کرنا چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقی پروگرام کے اسسٹنٹ کنٹری ڈائریکٹر عادل منصور کے مطابق علاقے کی تعمیر نو اور یہاں لوگوں کو دوبارہ بسانے کے لئے اگلے 2 سالوں میں لگ بھگ 80 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہو گی اگرچہ طویل مدتی انفراسٹرکچر پراجیکٹس کو مالیاتی مدد حاصل ہے تاہم عالمی ڈونرز کی توجہ شام اور یمن کی جانب مرکوز ہونے کے باعث مختصر مدتی پراجیکٹس وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا ہماری ایجنسی کو واپس آنیوالے خاندانوں کو خوراک اور ابتدائی امداد فراہم کرنے کے لئے 5 کروڑ ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔ امدادی کارروائیوں میں سرگرم افراد نے بتایا کہ آئی ڈی پیز کی واپسی کیلئے یہ سال بہت اہم ہے۔ امدادی عہدیداروں نے بتایا کہ ناکافی فنڈز کے باعث لوگوں کو اپنے خاندانوں کو سنبھالنے کے لئے سخت مشکلات درپیش ہونگی اور اس طرح بہت سے عسکریت پسندوں کو بھرتیاں کرنے میں آسانی ہو جائیگی۔ وہ لوگ جنہیں صحت، پانی، خوراک، نکاسی آب اور تعلیم جیسی بنیادی سہولت حاصل نہ ہوں تو وہ پھر کیا کریں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024