ملک بھر میں گرمی بڑھ گئی، چھور میں درجہ حرارت42 سینٹی گریڈ تک جاپہنچا۔
سیاسی درجہ حرارت100 سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے جبکہ امریکی قاتل کی رہائی کے بعد تو عوامی درجہ حرارت200سینٹی گریڈ کی حد کو چھونے والا ہے، یہ درجہ حرارت ’’ حریت‘‘ بن کررہائی کے ذمہ داروں کو جھلسا بھی سکتا ہے۔
’’ گید ڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کی جانب دوڑتا ہے‘‘
حکمرانوں کی جب بدبختی آتی ہے اور قدرت جب کسی کو سرعام رسوا کرکے نشانہ عبرت بناناچاہتی ہے تو ان سے قومی مفادات اور عوامی امنگوں کیخلاف فیصلے کرواتی ہے…؎
گناہ گرچہ ہنوز اختیار ماحافظ....... تودرطریق ادب کوش و گوگناہِ من است
گناہ اگرچہ میرے اختیار میں نہ تھا اس لیے سرز د ہوگیا اب کم از کم اتنا تو بصد ادب کہہ دیاجائے کہ ہاں میں نے بھی یہ گناہ کیا تھا۔
میڈیا پہ آکر عوام کے سامنے جھوٹ بولنے اور تاویلیں پیش کرنے والے اپنے جرم کو قبول کریں ورنہ گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ عوامی شدت میں اضافہ ہوگا جس پر قابو پانا مشکل ہوجائیگا۔سیاسی پیادوں نے اپنی تجوریوں کو کیسے بھرا،قومی غیرت کو کیسے نیلام کیا گیا ۔سقوط ڈھاکہ کے کردار اگر اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکے تو انکا انجام بد بھی بہت قریب ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭
پنجاب اسمبلی میں احتجاج کرنیوالے اکثراراکین کے گلے سوج گئے،اجلاس کے دوران ’’ کھٹی میٹھی‘‘ گولیاں تقسیم کی گئیں۔
پی پی اور(ق) لیگ کے ارکان اگر سات دن اسمبلی میں احتجاج عوامی مسائل کیلئے کرتے تو گلے سوجتے اور نہ ہی کھٹی میٹھی گولیاں کھانی پڑتیں، گولیاں بیچنے والے آئندہ اسمبلی کے اجلاس کا انتظار ہی کرینگے، ویسے اپوزیشن لیڈر کو دوران اجلاس ’’چورن‘‘ بیچناچاہئے ساقی بابا کا چورن گلے کی خراش کیلئے بڑا مشہور ہے اسے کنٹریکٹ دیاجائے تو بہتر ہوگا۔
کیونکہ چھانگا مانگا کی سیاست کرنیوالوں کو ’’لوٹے‘‘ اور ’’ چورن‘‘ کافی مقدار میں چاہئے ہوگا۔ خواتین ممبران کے نازک ہاتھ لوٹے اٹھا کر زخمی بھی ہوئے ہونگے ان کیلئے ’’لوشن ‘‘بھی لاکر نشستوں پر رکھاجائے۔
اگر راجوں اور مہاراجوں نے ان چیزوں کا فی الفور بندوبست نہ کیا تو پھر انکی توقعات کیخلاف کام شروع ہوجائیگا کیونکہ خواتین ’’میک اپ‘‘ پر سمجھوتہ نہیں کرتیں اسمبلی کے تین پارلیمانی سال مکمل ہوچکے ہیں لیکن اسکا حال کچھ یوں ہے…؎
بیت چکے ہیں تین سال.... گونگا ماضی اندھا حال
اجڑے پنچھی ٹوٹی ڈال.... پھیلے ہیں انجانے جال
٭…٭…٭…٭…٭
ریمنڈ کی رہائی صحافیوںکے تلخ سوالات سے بچنے کیلئے دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ ملتوی۔
ظالم ریمنڈ کی وجہ سے فوزیہ وہاب کو ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھنا پڑا،شاہ محمود قریشی کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا،دفتر خارجہ کی ترجمان نے سکوت میں ہی عافیت سمجھی ہوگی۔
ایک وکیل نے جعلی کرنسی میں ملوث مجرم کو مقدمے سے بری کروایا تو ملزم جاتے ہوئے وکیل کو بھی جعلی کرنسی میں فیس دے گیا۔
جعلی نام والے ریمنڈ کو رہا کروانے والے قومی مجرم اپنے امریکی ویزے اور کمیشن کے طورپر ملنے والے ڈالروں کو ضرور چیک کرلیں، کیونکہ جعلی لوگوں کے کام جعلی ہی ہوتے ہیں وہ ضرورباالضرور کسی موقع پر ان سے ہاتھ کرگیا ہوگا…؎
آتش نشاندن واخگر گذاشتن وافعی کشتن...... وبچہ اش نگاہ درشتن کارِ خرد منداں نیست
آگ بجھانا اور چنگاری چھوڑ دینا،سانپ مارنا اور اسکے بچے کو محفوظ رکھنا عقل مندوں کا کام نہیں۔
حکومت نے قاتل کو رہا کرکے اس کے پاکستان میں موجود6 سو ساتھیوں کیلئے راستہ کھول دیا ہے جو کہ عقلمندوں کا کام نہیں ہے دفتر خارجہ کو اس سلسلے میں واضح موقف دیناچاہئے۔
٭…٭…٭…٭…٭
وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ کفایت شعاری سے 120ارب روپے کی بچت ہوگی، کفایت شعاری کب کرینگے،جب پورا ملک گروی رکھ دیاجائیگا،شیخ صاحب ذرا ’’ شیخ‘‘ بن کر قومی خزانے کی حفاظت کریں۔ شوکت ترین کی طرح ’’امیر ترین‘‘ بن کر حکمران طبقے کیلئے اسکا منہ مت کھولیں۔
شیخ برادری کے بارے میں لطیفہ مشہور ہے کہ ایک شیخ نے دیسی گھی منگوا کر ڈبے میں رکھ دیا جب بھی کھانے کا وقت ہوتا تو بچوں کو قریب بلا کر ڈبے پر روٹی رگڑ کر انہیں دیتا ایک دفعہ شیخ صاحب کہیں مہمان چلے گئے تو جاتے ہوئے ڈبے کو صندوق میں رکھ گئے، واپسی پر بچوں سے پوچھا بیٹا روٹی کیسے کھاتے رہے تو بچوں نے کہا اباجی گھی کے ساتھ شیخ جی گھی کا نام سن کر آگ بگولا ہوگئے بچوں سے کہا کیا صندوق توڑ لیا تھا۔ بچوں نے معصومیت سے جواب دیاہم روٹی صندوق پر مَل کر کھاتے رہے،شیخ صاحب نے کہا کم بختوں کبھی بغیر گھی کے بھی کھا لیا کرو۔
لیکن وزیر خزانہ شیخ ’’ حاتم طائی‘‘ بنے نظر آتے ہیں،ملکی خزانے کو اپنے گھر کی طرح استعمال کیاجائے تو 170 کھرب کی بچت ہوسکتی ہے۔
لیکن یہاں بقول جالب الٹی گنگا بہہ رہی ہے…؎
وہی حالات ہیں فقیروں کے..... دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
سیاسی درجہ حرارت100 سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے جبکہ امریکی قاتل کی رہائی کے بعد تو عوامی درجہ حرارت200سینٹی گریڈ کی حد کو چھونے والا ہے، یہ درجہ حرارت ’’ حریت‘‘ بن کررہائی کے ذمہ داروں کو جھلسا بھی سکتا ہے۔
’’ گید ڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کی جانب دوڑتا ہے‘‘
حکمرانوں کی جب بدبختی آتی ہے اور قدرت جب کسی کو سرعام رسوا کرکے نشانہ عبرت بناناچاہتی ہے تو ان سے قومی مفادات اور عوامی امنگوں کیخلاف فیصلے کرواتی ہے…؎
گناہ گرچہ ہنوز اختیار ماحافظ....... تودرطریق ادب کوش و گوگناہِ من است
گناہ اگرچہ میرے اختیار میں نہ تھا اس لیے سرز د ہوگیا اب کم از کم اتنا تو بصد ادب کہہ دیاجائے کہ ہاں میں نے بھی یہ گناہ کیا تھا۔
میڈیا پہ آکر عوام کے سامنے جھوٹ بولنے اور تاویلیں پیش کرنے والے اپنے جرم کو قبول کریں ورنہ گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ عوامی شدت میں اضافہ ہوگا جس پر قابو پانا مشکل ہوجائیگا۔سیاسی پیادوں نے اپنی تجوریوں کو کیسے بھرا،قومی غیرت کو کیسے نیلام کیا گیا ۔سقوط ڈھاکہ کے کردار اگر اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکے تو انکا انجام بد بھی بہت قریب ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭
پنجاب اسمبلی میں احتجاج کرنیوالے اکثراراکین کے گلے سوج گئے،اجلاس کے دوران ’’ کھٹی میٹھی‘‘ گولیاں تقسیم کی گئیں۔
پی پی اور(ق) لیگ کے ارکان اگر سات دن اسمبلی میں احتجاج عوامی مسائل کیلئے کرتے تو گلے سوجتے اور نہ ہی کھٹی میٹھی گولیاں کھانی پڑتیں، گولیاں بیچنے والے آئندہ اسمبلی کے اجلاس کا انتظار ہی کرینگے، ویسے اپوزیشن لیڈر کو دوران اجلاس ’’چورن‘‘ بیچناچاہئے ساقی بابا کا چورن گلے کی خراش کیلئے بڑا مشہور ہے اسے کنٹریکٹ دیاجائے تو بہتر ہوگا۔
کیونکہ چھانگا مانگا کی سیاست کرنیوالوں کو ’’لوٹے‘‘ اور ’’ چورن‘‘ کافی مقدار میں چاہئے ہوگا۔ خواتین ممبران کے نازک ہاتھ لوٹے اٹھا کر زخمی بھی ہوئے ہونگے ان کیلئے ’’لوشن ‘‘بھی لاکر نشستوں پر رکھاجائے۔
اگر راجوں اور مہاراجوں نے ان چیزوں کا فی الفور بندوبست نہ کیا تو پھر انکی توقعات کیخلاف کام شروع ہوجائیگا کیونکہ خواتین ’’میک اپ‘‘ پر سمجھوتہ نہیں کرتیں اسمبلی کے تین پارلیمانی سال مکمل ہوچکے ہیں لیکن اسکا حال کچھ یوں ہے…؎
بیت چکے ہیں تین سال.... گونگا ماضی اندھا حال
اجڑے پنچھی ٹوٹی ڈال.... پھیلے ہیں انجانے جال
٭…٭…٭…٭…٭
ریمنڈ کی رہائی صحافیوںکے تلخ سوالات سے بچنے کیلئے دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ ملتوی۔
ظالم ریمنڈ کی وجہ سے فوزیہ وہاب کو ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھنا پڑا،شاہ محمود قریشی کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا،دفتر خارجہ کی ترجمان نے سکوت میں ہی عافیت سمجھی ہوگی۔
ایک وکیل نے جعلی کرنسی میں ملوث مجرم کو مقدمے سے بری کروایا تو ملزم جاتے ہوئے وکیل کو بھی جعلی کرنسی میں فیس دے گیا۔
جعلی نام والے ریمنڈ کو رہا کروانے والے قومی مجرم اپنے امریکی ویزے اور کمیشن کے طورپر ملنے والے ڈالروں کو ضرور چیک کرلیں، کیونکہ جعلی لوگوں کے کام جعلی ہی ہوتے ہیں وہ ضرورباالضرور کسی موقع پر ان سے ہاتھ کرگیا ہوگا…؎
آتش نشاندن واخگر گذاشتن وافعی کشتن...... وبچہ اش نگاہ درشتن کارِ خرد منداں نیست
آگ بجھانا اور چنگاری چھوڑ دینا،سانپ مارنا اور اسکے بچے کو محفوظ رکھنا عقل مندوں کا کام نہیں۔
حکومت نے قاتل کو رہا کرکے اس کے پاکستان میں موجود6 سو ساتھیوں کیلئے راستہ کھول دیا ہے جو کہ عقلمندوں کا کام نہیں ہے دفتر خارجہ کو اس سلسلے میں واضح موقف دیناچاہئے۔
٭…٭…٭…٭…٭
وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ کفایت شعاری سے 120ارب روپے کی بچت ہوگی، کفایت شعاری کب کرینگے،جب پورا ملک گروی رکھ دیاجائیگا،شیخ صاحب ذرا ’’ شیخ‘‘ بن کر قومی خزانے کی حفاظت کریں۔ شوکت ترین کی طرح ’’امیر ترین‘‘ بن کر حکمران طبقے کیلئے اسکا منہ مت کھولیں۔
شیخ برادری کے بارے میں لطیفہ مشہور ہے کہ ایک شیخ نے دیسی گھی منگوا کر ڈبے میں رکھ دیا جب بھی کھانے کا وقت ہوتا تو بچوں کو قریب بلا کر ڈبے پر روٹی رگڑ کر انہیں دیتا ایک دفعہ شیخ صاحب کہیں مہمان چلے گئے تو جاتے ہوئے ڈبے کو صندوق میں رکھ گئے، واپسی پر بچوں سے پوچھا بیٹا روٹی کیسے کھاتے رہے تو بچوں نے کہا اباجی گھی کے ساتھ شیخ جی گھی کا نام سن کر آگ بگولا ہوگئے بچوں سے کہا کیا صندوق توڑ لیا تھا۔ بچوں نے معصومیت سے جواب دیاہم روٹی صندوق پر مَل کر کھاتے رہے،شیخ صاحب نے کہا کم بختوں کبھی بغیر گھی کے بھی کھا لیا کرو۔
لیکن وزیر خزانہ شیخ ’’ حاتم طائی‘‘ بنے نظر آتے ہیں،ملکی خزانے کو اپنے گھر کی طرح استعمال کیاجائے تو 170 کھرب کی بچت ہوسکتی ہے۔
لیکن یہاں بقول جالب الٹی گنگا بہہ رہی ہے…؎
وہی حالات ہیں فقیروں کے..... دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے