مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
حبیب جالب کی 17ویں برسی کی تقاریب کا آغاز مزار پر چراغاں سے کیا گیا۔ اس موقع پر نیم اہم شخصیتوں سمیت عوام کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ہم آپکو ایک آنکھوں دیکھی تفصیل کی مختصر داستان سناتے ہیں۔ پچھلے دنوں حبیب جالب مرحوم کی بیٹی درخشندہ ہمارے دفتر میں تقریباً ایک مہینہ روزانہ یہ شکایت لیکر آتی رہی کہ وہ فاقے مر رہے ہیں حکومت انکی مدد نہیں کرتی‘ کوئی انہیں پوچھتا نہیں اور سب سے بڑا ستم یہ کہ بدقماشوں نے اُنکے گھر میں گھس کر افرادِ خانہ کی بے عزتی کی‘ درخشندہ کا بھائی زخمی کیا گیا وہ بے چاری تھانوں میں دھکے کھاتی رہی۔ بڑی جیدار لڑکی ہے اور زمانوں کی نظروں سے بچنے کیلئے مکمل مردانہ لباس پہنتی ہے۔ ہم نے اپنے تئیں بڑی کوشش کی اور اُدھر ٹیلی فون کئے کہ کسی طرح جالب کی لختِ جگر کے مسائل حل ہوں مگر بے سود۔
شاعرِ انقلاب حبیب جالب کوئی چھوٹے موٹے شاعر نہیں تھے بلکہ وہ سورما شاعر تھے ایوب خان جیسے آمر کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوئے اور ایسی نظمیں کہیں کہ ایوب خان کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ انہوں نے آمر ایوب خان کے دور میں کہا …؎
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا
٭…٭…٭…٭
وفاقی وزیر اطلاعات چودھری کائرہ نے کہا ہے پنجاب میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو جلد توڑ دیا جائیگا۔
یہ بات وزیر دفاع کہتے تو زیادہ مناسب ہوتا مگر ہُوا یوں ہو گا کہ وزیر دفاع یا وزیر داخلہ نے ان کو اطلاع دی ہو گی کہ وہ اطلاعات کے وزیر ہونے کے ناطے اطلاع عام کر دیں کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک جلد توڑ دئیے جائینگے جیسے یہ کوئی خالہ جی کا باڑہ ہو۔ دہشتگردوں نے تو الٹا یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ انتظامیہ کی بھرپور موجودگی میں دہشتگردی کرکے دکھا سکتے ہیں بہاروں کا موسم ہے اور دھماکوں کا جشن‘ شادی ہالوں میں دلہنیں لہنگے سنبھالتی ہوئی دوڑتی نکلیں اور دولہے بے چارے اس خوف کا شکار رہے کہ کہیں سر منڈاتے ہی اولے نہ پڑ جائیں۔ آر اے بازار سے لیکر سمن آباد تک دھماکوں کی یلغار کوئی چھوٹا موٹا چیلنج نہیں بلکہ کمینے دشمن کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے ۔ یہ ’’را‘‘ہے جو افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہو رہی ہے اور ہمارے خفیہ اداروں کو اطلاع کر رہی ہے کہ پاکستان جب تک امریکا کی غلامی ترک نہیں کرتا دہشت گردی ہوتی رہے گی۔ ظاہر ہے ’’را‘‘ یہ میسج تو نہیں بھیجے گی کہ جو کچھ کیا ’’را‘‘ نے کیا اس لئے پاکستان امن آشا کے علمبرداروں کا راستہ نہ روکے۔
٭…٭…٭…٭
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے کہا ہے کہ زرداری اور نواز شریف ایک ہی کھوٹے سکے کے دو رخ ہیں۔
سید منور حسن صاحب کو چاہئے کہ پہلے اپنے سکے اپنی مقناطیس پر پرکھ لیں‘ پھر فیصلہ دیں کہ کھوٹے سکے دو ہیں یا ہزاروں؟ کیا اس ملک میں جمہوریت کی واپسی جماعت اسلامی کی مرہون منت ہے‘ کیا ایک صدی سے زیادہ عمر پانے کے باوجود اس ملک میں جمہوریت کی واپسی جماعت اسلامی نے کی ہے یا کوئی اسلامی انقلاب برپا کیا ہے۔ قاضی صاحب کے بیانات میں کم از کم بیان کی چاشنی تو ہوتی تھی‘ موجودہ امیر جماعت تو دو بڑی جماعتوں کو کھوٹا سکہ کہہ کر پورے ملک سے جیسے جمہوریت کو رخصت کر رہے ہیں۔
صدر زرداری 73ء کے آئین کی بحالی کی تیاری کر رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے اچھے کاموں میں تعاون کر رہی ہے‘ کیا منور حسن صاحب چاہتے ہیں کہ یہ ہم آہنگی بھی نہ رہے۔ سیاسی طور پر انہیں اس بات کا شعور ہونا چاہئے کہ دو بڑی جماعتوں کے امیروں کو کھوٹہ سکہ کہہ کر انہوں نے اپنی ’’امیری‘‘ کو معرض خطر میں ڈال دیا ہے۔ جماعت اسلامی ایک بڑی دینی و سیاسی جماعت ہے‘ وہ اپنے اندر ایسے کھرے سکے ڈھالے جو ملک کی زمام سنبھالیں۔ جماعت کے پاس اتنی افرادی سیاسی اور علمی قوت ہے کہ وہ چاہے تو اس سے پارلیمنٹ بھر سکتی ہے مگر اسے سوچنا چاہئے کہ آخر ایسا کیوں نہیں ہو پاتا اور وہ قائداعظم کا اسلامی جمہوریہ پاکستان قائم کیوں نہیں کر سکتی۔ وہ کھوٹے سکے قبول بھی کرتے ہیں اور ان کو دھتکارتے بھی ہیں۔ اگر جماعت اسلامی کھرا سکہ ہے تو پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے ہوم ورک کرکے انتخابی میدان میں آئے۔
٭…٭…٭…٭
خبر ہے کہ ایک سنگدل باپ نے یہ کہتے ہوئے کہ بیٹا کیوں نہیں ہوتا‘ ڈھائی ماہ کی بچی زمین پر پٹخ کر مار دی۔
بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں اور گھر کی رونق‘ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے کہ بیٹا ہی اولاد ہوتی ہے‘ بیٹی تو سرے سے اولاد میں شامل ہی نہیں سمجھی جاتی‘ جب یہ چھوٹی سی بچی بروز قیامت اللہ سے کہے گی کہ اسے کس جرم کی پاداش میں مارا گیا تو یہ سفاک باپ کیا جواب دیگا۔ ظلم کی حد ہے کہ باپ اپنی دوسری بچی کو بھی مارنے لگا تھا کہ اسے ماں نے بچا لیا۔ سید جنہیں ہم نہایت احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں‘ رسول اللہؐ کی بیٹی کی اولاد میں سے ہیں اور رسول اللہؐ نے اپنے نواسوں کو بیٹیوں کا درجہ دیا‘ گویا انکی نظر میں بیٹی کی اس قدر اہمیت تھی مگر آج ہم جو انکی امت میں سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ شادی کرتے ہی اس لئے ہیں کہ بیٹا پیدا ہو‘ یہ خیال براہ راست اللہ کے تخلیقی نظام میں مداخلت ہے اور ہمارے ہاں اکثر لوگ بیٹے کی امید پر بیٹیاں پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ شاید انکی سوچ کی سزا ہوتی ہے۔
ہمارے علماء دین کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ اس طرح کی ظالمانہ جہالت ترک کر دیں اور بیٹی کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ بیٹیاں تو چڑیوں کا چنبہ ہوتی ہیں‘ جوان ہونے تک بابل کے آنگن میں چہکتی رہتی ہیں‘ ماں باپ کی خدمت کرتی ہیں‘ گھر کے کام کاج کرتی ہیں اور انکے وجود سے گھر کا آنگن گل وگلزار ہوتا ہے۔ بیٹیاں چند برس گزار کر اپنے اپنے گھروں کو سدھار جاتی ہیں‘ یہ بیٹیاں نہ ہوتیں تو بیٹے کہاں سے آتے؟
حبیب جالب کی 17ویں برسی کی تقاریب کا آغاز مزار پر چراغاں سے کیا گیا۔ اس موقع پر نیم اہم شخصیتوں سمیت عوام کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ہم آپکو ایک آنکھوں دیکھی تفصیل کی مختصر داستان سناتے ہیں۔ پچھلے دنوں حبیب جالب مرحوم کی بیٹی درخشندہ ہمارے دفتر میں تقریباً ایک مہینہ روزانہ یہ شکایت لیکر آتی رہی کہ وہ فاقے مر رہے ہیں حکومت انکی مدد نہیں کرتی‘ کوئی انہیں پوچھتا نہیں اور سب سے بڑا ستم یہ کہ بدقماشوں نے اُنکے گھر میں گھس کر افرادِ خانہ کی بے عزتی کی‘ درخشندہ کا بھائی زخمی کیا گیا وہ بے چاری تھانوں میں دھکے کھاتی رہی۔ بڑی جیدار لڑکی ہے اور زمانوں کی نظروں سے بچنے کیلئے مکمل مردانہ لباس پہنتی ہے۔ ہم نے اپنے تئیں بڑی کوشش کی اور اُدھر ٹیلی فون کئے کہ کسی طرح جالب کی لختِ جگر کے مسائل حل ہوں مگر بے سود۔
شاعرِ انقلاب حبیب جالب کوئی چھوٹے موٹے شاعر نہیں تھے بلکہ وہ سورما شاعر تھے ایوب خان جیسے آمر کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوئے اور ایسی نظمیں کہیں کہ ایوب خان کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ انہوں نے آمر ایوب خان کے دور میں کہا …؎
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا
٭…٭…٭…٭
وفاقی وزیر اطلاعات چودھری کائرہ نے کہا ہے پنجاب میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو جلد توڑ دیا جائیگا۔
یہ بات وزیر دفاع کہتے تو زیادہ مناسب ہوتا مگر ہُوا یوں ہو گا کہ وزیر دفاع یا وزیر داخلہ نے ان کو اطلاع دی ہو گی کہ وہ اطلاعات کے وزیر ہونے کے ناطے اطلاع عام کر دیں کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک جلد توڑ دئیے جائینگے جیسے یہ کوئی خالہ جی کا باڑہ ہو۔ دہشتگردوں نے تو الٹا یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ انتظامیہ کی بھرپور موجودگی میں دہشتگردی کرکے دکھا سکتے ہیں بہاروں کا موسم ہے اور دھماکوں کا جشن‘ شادی ہالوں میں دلہنیں لہنگے سنبھالتی ہوئی دوڑتی نکلیں اور دولہے بے چارے اس خوف کا شکار رہے کہ کہیں سر منڈاتے ہی اولے نہ پڑ جائیں۔ آر اے بازار سے لیکر سمن آباد تک دھماکوں کی یلغار کوئی چھوٹا موٹا چیلنج نہیں بلکہ کمینے دشمن کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے ۔ یہ ’’را‘‘ہے جو افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہو رہی ہے اور ہمارے خفیہ اداروں کو اطلاع کر رہی ہے کہ پاکستان جب تک امریکا کی غلامی ترک نہیں کرتا دہشت گردی ہوتی رہے گی۔ ظاہر ہے ’’را‘‘ یہ میسج تو نہیں بھیجے گی کہ جو کچھ کیا ’’را‘‘ نے کیا اس لئے پاکستان امن آشا کے علمبرداروں کا راستہ نہ روکے۔
٭…٭…٭…٭
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے کہا ہے کہ زرداری اور نواز شریف ایک ہی کھوٹے سکے کے دو رخ ہیں۔
سید منور حسن صاحب کو چاہئے کہ پہلے اپنے سکے اپنی مقناطیس پر پرکھ لیں‘ پھر فیصلہ دیں کہ کھوٹے سکے دو ہیں یا ہزاروں؟ کیا اس ملک میں جمہوریت کی واپسی جماعت اسلامی کی مرہون منت ہے‘ کیا ایک صدی سے زیادہ عمر پانے کے باوجود اس ملک میں جمہوریت کی واپسی جماعت اسلامی نے کی ہے یا کوئی اسلامی انقلاب برپا کیا ہے۔ قاضی صاحب کے بیانات میں کم از کم بیان کی چاشنی تو ہوتی تھی‘ موجودہ امیر جماعت تو دو بڑی جماعتوں کو کھوٹا سکہ کہہ کر پورے ملک سے جیسے جمہوریت کو رخصت کر رہے ہیں۔
صدر زرداری 73ء کے آئین کی بحالی کی تیاری کر رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے اچھے کاموں میں تعاون کر رہی ہے‘ کیا منور حسن صاحب چاہتے ہیں کہ یہ ہم آہنگی بھی نہ رہے۔ سیاسی طور پر انہیں اس بات کا شعور ہونا چاہئے کہ دو بڑی جماعتوں کے امیروں کو کھوٹہ سکہ کہہ کر انہوں نے اپنی ’’امیری‘‘ کو معرض خطر میں ڈال دیا ہے۔ جماعت اسلامی ایک بڑی دینی و سیاسی جماعت ہے‘ وہ اپنے اندر ایسے کھرے سکے ڈھالے جو ملک کی زمام سنبھالیں۔ جماعت کے پاس اتنی افرادی سیاسی اور علمی قوت ہے کہ وہ چاہے تو اس سے پارلیمنٹ بھر سکتی ہے مگر اسے سوچنا چاہئے کہ آخر ایسا کیوں نہیں ہو پاتا اور وہ قائداعظم کا اسلامی جمہوریہ پاکستان قائم کیوں نہیں کر سکتی۔ وہ کھوٹے سکے قبول بھی کرتے ہیں اور ان کو دھتکارتے بھی ہیں۔ اگر جماعت اسلامی کھرا سکہ ہے تو پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے ہوم ورک کرکے انتخابی میدان میں آئے۔
٭…٭…٭…٭
خبر ہے کہ ایک سنگدل باپ نے یہ کہتے ہوئے کہ بیٹا کیوں نہیں ہوتا‘ ڈھائی ماہ کی بچی زمین پر پٹخ کر مار دی۔
بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں اور گھر کی رونق‘ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے کہ بیٹا ہی اولاد ہوتی ہے‘ بیٹی تو سرے سے اولاد میں شامل ہی نہیں سمجھی جاتی‘ جب یہ چھوٹی سی بچی بروز قیامت اللہ سے کہے گی کہ اسے کس جرم کی پاداش میں مارا گیا تو یہ سفاک باپ کیا جواب دیگا۔ ظلم کی حد ہے کہ باپ اپنی دوسری بچی کو بھی مارنے لگا تھا کہ اسے ماں نے بچا لیا۔ سید جنہیں ہم نہایت احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں‘ رسول اللہؐ کی بیٹی کی اولاد میں سے ہیں اور رسول اللہؐ نے اپنے نواسوں کو بیٹیوں کا درجہ دیا‘ گویا انکی نظر میں بیٹی کی اس قدر اہمیت تھی مگر آج ہم جو انکی امت میں سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ شادی کرتے ہی اس لئے ہیں کہ بیٹا پیدا ہو‘ یہ خیال براہ راست اللہ کے تخلیقی نظام میں مداخلت ہے اور ہمارے ہاں اکثر لوگ بیٹے کی امید پر بیٹیاں پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ شاید انکی سوچ کی سزا ہوتی ہے۔
ہمارے علماء دین کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ اس طرح کی ظالمانہ جہالت ترک کر دیں اور بیٹی کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ بیٹیاں تو چڑیوں کا چنبہ ہوتی ہیں‘ جوان ہونے تک بابل کے آنگن میں چہکتی رہتی ہیں‘ ماں باپ کی خدمت کرتی ہیں‘ گھر کے کام کاج کرتی ہیں اور انکے وجود سے گھر کا آنگن گل وگلزار ہوتا ہے۔ بیٹیاں چند برس گزار کر اپنے اپنے گھروں کو سدھار جاتی ہیں‘ یہ بیٹیاں نہ ہوتیں تو بیٹے کہاں سے آتے؟