قوموں کی تاریخ میں تحریکوں اور لانگ مارچ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ چندا فراد کی مثبت سوچ اگر مستقل مزاجی سے آگے بڑھے تو قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے۔ 15 مارچ کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک یادگار دن ہے۔ چند وکلاء کی طرف سے شروع ہونے والی تحریک آخر ایک بڑی تحریک میں بدل گئی جس کے نتیجے میں 16مارچ کو وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا وزیراعظم نے ملک بھر میں دفعہ 144 ختم کرتے ہوئے شریف برادران کو میثاق جمہوریت کے مطابق اقدامات کے لئے مذاکرات کی دعوت بھی دی۔ جس وقت یہ اعلان کیا گیا اُس وقت میاں نواز شریف گوجرانوالہ میں لانگ مارچ کی قیادت کر رہے تھے اس اقدام کے ردعمل کے طور پر انہوں نے کہا اب پاکستان میں مثبت تبدیلی آئے گی اور میثاق جمہوریت پر عمل کرکے پارلیمنٹ کو سپریم بنائیں گے۔ انہوں نے قاضی حسین احمد، عمران خان اور علی احمد کرد سے مشاورت کے بعد لانگ مارچ کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی احمد کرد نے رد عمل ظاہر کیا کہ وہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججز کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ وکلاء کی تحریک نے عدلیہ کی آزادی کاہدف حاصل کر لیا ہے۔ وزیراعظم کی تقریر کا ہم نے یہ مفہوم لیا ہے کہ عدلیہ کو 2 نومبر کی پوزیشن پر بحال کیا جا رہا ہے۔ وکلائ، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی اور میڈیا کی جدوجہد کے نتیجے میں آج چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججز کی بحالی عمل میں آئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وکلاء اور سول سوسائٹی کی تحریک بغیر اہداف کا تصور بظاہر محال تھا مگر پُرامن رہنے کے باعث یہ اہداف حاصل ہو سکے۔
سردار اختر مینگل کا یہ کہنا کہ چند چہروں کے بدلنے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ہمیں نظام بدلنا ہو گا۔ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک ظلم ناانصافی کی بنیادوں پر کھڑا نظام ختم نہیں ہوتا۔ اس ظلم اور ناانصافی نے طالبان اور بی ایل ایف کو جنم دیا ہے۔ یہ نظام طالبان اور بی ایل ایف کو ٹینکوں کے ذریعے ختم نہیں کر سکتا۔ طالبان اور بی ایل ایف ایک سوچ کا نام ہے سوچ ختم نہیں ہو سکتی لیکن تبدیل ہو سکتی ہے اور تبدیلی کا واحد طریقہ نظام کی تبدیلی ہے۔
ہمیں نواز شریف، قاضی حسین احمد، عمران خان، اعتزاز احسن، علی احمد کرد اور سول سوسائٹی کے دیگر دوستوں پر نہیں بلکہ شیری رحمن پر بھی فخر ہے۔ میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ یہ کہ چکا ہوں کہ نواز شریف، قاضی حسین احمد اور عمران خان مل کر ہی اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں اکیلی ایک جماعت یا شخص اس پوزیشن میں نہیں کہ اس نظام کو بدل سکے۔
٭٭٭٭٭
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی احمد کرد نے رد عمل ظاہر کیا کہ وہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججز کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ وکلاء کی تحریک نے عدلیہ کی آزادی کاہدف حاصل کر لیا ہے۔ وزیراعظم کی تقریر کا ہم نے یہ مفہوم لیا ہے کہ عدلیہ کو 2 نومبر کی پوزیشن پر بحال کیا جا رہا ہے۔ وکلائ، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی اور میڈیا کی جدوجہد کے نتیجے میں آج چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججز کی بحالی عمل میں آئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وکلاء اور سول سوسائٹی کی تحریک بغیر اہداف کا تصور بظاہر محال تھا مگر پُرامن رہنے کے باعث یہ اہداف حاصل ہو سکے۔
سردار اختر مینگل کا یہ کہنا کہ چند چہروں کے بدلنے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ہمیں نظام بدلنا ہو گا۔ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک ظلم ناانصافی کی بنیادوں پر کھڑا نظام ختم نہیں ہوتا۔ اس ظلم اور ناانصافی نے طالبان اور بی ایل ایف کو جنم دیا ہے۔ یہ نظام طالبان اور بی ایل ایف کو ٹینکوں کے ذریعے ختم نہیں کر سکتا۔ طالبان اور بی ایل ایف ایک سوچ کا نام ہے سوچ ختم نہیں ہو سکتی لیکن تبدیل ہو سکتی ہے اور تبدیلی کا واحد طریقہ نظام کی تبدیلی ہے۔
ہمیں نواز شریف، قاضی حسین احمد، عمران خان، اعتزاز احسن، علی احمد کرد اور سول سوسائٹی کے دیگر دوستوں پر نہیں بلکہ شیری رحمن پر بھی فخر ہے۔ میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ یہ کہ چکا ہوں کہ نواز شریف، قاضی حسین احمد اور عمران خان مل کر ہی اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں اکیلی ایک جماعت یا شخص اس پوزیشن میں نہیں کہ اس نظام کو بدل سکے۔
٭٭٭٭٭