ہفتہ،18 ذیقعد 1443ھ،18جون 2022 ء
سابق وفاقی وزیر اور سینئر رہنماء مسلم لیگ (ق) مونس الٰہی کا کہنا ہے کہ آج مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہو جائوں تو یہ ڈرامے ختم ہو جائیں گے۔
سیاست کے میدان میں اس طرح کے کھیل تو کھیلے ہی جاتے ہیں جہاں زچ کرنے والے اچھے وقتوں کے تعلقات کا بھی خیال نہیں رکھتے۔ بلیم گیمنگ کی تو انتہا کردی جاتی ہے۔ لیکن جب اقتدار کی بات ہو تو ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے والے کرسی کی محبت میں شیروشکر ہو جاتے ہیں۔ سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ کل کا بدترین حریف آج کا مثالی حلیف بن جاتا ہے جبکہ ہماری سیاست میں تو پینترا بدلنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی جاتی۔ اپنے مفادات کی خاطر لوٹا بننے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ حزب اقتدار والے حزب اختلاف کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں اور حزب اختلاف والے اہلِ اقتدار کو سکون سے کام نہیں کرنے دیتے۔ ان دونوں کی لڑائی میں بے چارے عوام پستے رہتے ہیں جن کے مسائل کے انبار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب اقتدار کی بوٹی مل بیٹھ کر کھانے پر اتفاق ہو جاتا ہے تو نہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہوتی ہے اور نہ ہی بلیم گیم کھیلی جاتی ہے۔ اب اس مخلوط حکومت کو ہی دیکھ لیجئے‘ جس کے اتحادی ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے روادار نہ تھے‘ آج اقتدار کی خاطر ایک جان اور ایک جسم بنے نظر آرہے ہیں۔ بہتر نہیں کہ تمام سیاست دان ایک دوسرے کے مستقل حلیف بن جائیں اس طرح اقتدار کے مزے بھی دوبالا ہوںگے اور عوام کو بھی اپنے مسائل کے حل کی امید نظر آنے لگے گی۔ موجودہ حکومت اس کی بہترین مثال ہے جو عوامی مسائل کے حل کیلئے ’’کوشاں‘‘ نظر آرہی ہے۔ مونس الٰہی کو اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے اپنے لئے نہ سہی‘ بے چارے پریشانیوں میں گھرے عوام کی خاطر ہی سہی۔اس طرح ایک دوسرے کیخلاف رچائے گئے ڈراموں کا خاتمہ ہوگا اور عوام کو حقیقی ریلیف ملنے کی امید بھی پیدا ہوجائیگی۔
٭…٭…٭
شنید ہے کہ قربانی کے ہتھیار‘ اوزار مہنگے ہو گئے‘ موسمی قصائی میدان میں آنے کی تیاریوں میں لگ گئے‘ جانوروں کے گلے میں ڈالنے والی رسیاں اور گھنگرو بھی مہنگے ہو گئے۔
یہ ہمارا مذہبی تہوار ہے‘ ہونا تو یہ چاہیے کہ مارکیٹ میں ہر چیز سستی دستیاب ہو تاکہ غریب اور متوسط طبقہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکے‘ مگر یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ ہر تہوار کے موقع پر ہمارے ہاں اشیاء اس قدر مہنگی اور نایاب ہو جاتی ہیں کہ غریب طبقہ عام دنوں کے مقابلہ میں اس موقع پر خود کو زیادہ غریب محسوس کرتا ہے جبکہ دوسرے ملکوں بالخصوص یورپ میں مذہبی تہواروں کے موقع پر ہر چیز انتہائی ارزاں قیمت پر دستیاب ہوتی ہے جسے ہر کوئی آسانی سے خرید سکتا ہے ۔ یہ مہذبی تہوار پر یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔ کئی دکاندار گفٹ پیک بنا کر اپنی دکانوں کے باہر رکھ دیتے ہیں تاکہ جو لوگ خریدنے کی سکت نہ رکھتے ہوں۔ وہ یہ گفٹ پیک اٹھا کر لے جائیں‘ جبکہ ہمارے ہاں ایسے موقعوں پر الٹی گنگنا بہتی ہے ۔ ہر چیز کی قیمت آسمان پر پہنچا دی جاتی ہے تاکہ اس موقع پر زیادہ سے زیادہ عوام کی کھال کھنیچ کر منافع کمایا جاسکے۔ یعنی جانوروں سے پہلے عوام کا جھٹکا کردیا جاتا ہے۔ جانوروں کے گلے میں ڈالنے والی رسیاں اور گھنگرئوں کی کیا اوقات ہے‘ وہ بھی سونے کے بھائو بکنا شروع ہو گئے ہیں۔ البتہ اس موقع پر موسمی قصابوں کے تو ضرور وارے نیارے ہو جاتے ہیں‘ جنہوں نے کبھی مرغی ذبح نہیں کی ہوتی‘ وہ اس عید پر لوگوں کے قیمتی جانوروں کا ستیاناس کرنے نکل پڑتے ہیں جبکہ پروفیشنل قصابوں کا تو سٹیٹس ہی بدل جاتا ہے‘ اول تو وہ ہاتھ ہی نہیں آتے‘ اگر شومئی قسمت آبھی جائیں تو جانور ذبح کرنے کے نرخ اتنے زیادہ بتاتے ہیں کہ بندہ سوچتا ہے تھوڑے پیسے ڈال کر ایک اور جانور نہ خرید لیا جائے۔ منڈی چلے جائیں تو جانوروں کی قیمتیں سن کر لگتا ہے جیسے سوہے بازار (سونے کی مارکیٹ) میں آگئے ہیں۔ وہاں قربانی کے کم، مقابلہ حسن کے جانور زیادہ نظر آتے ہیں جن کے منہ مانگے دام وصول کئے جاتے ہیں۔ خدارا یہ ہمارا مذہبی تہوار ہے‘ ہر مسلمان کو اپنا فریضہ پور ا کرنے دیا جائے تاکہ سنت ابراہیمی کو یاد رکھا جائے نہ کہ یہ یاد رکھا جائے کہ پچھلے سال فلاں نے زیادہ بڑا جانور قربان کیا تھا‘ اس مرتبہ اس سے بڑا جانور خرید کر اسے مات دی جائے۔
٭…٭…٭
ایک خبر کے مطابق سورج کی حرارت روکنے کیلئے تحقیق کی جارہی ہے کہ اس کو ڈھاپ کر حرارت کو ضرورت کے مطابق زمین تک لایا جاسکے۔
دنیا بھر کا موسم تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے‘ دنیا کے سرد علاقے تیزی سے گرمی کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ موسم کی اس تبدیلی سے امریکہ اور کینیڈا جیسے سرد علاقے بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں‘ جیسے جیسے وہاں گرمی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے‘ وہاں کے عوام بے لباس ہوتے جا رہے ہیں۔ سائنس دانوں کا سورج کو ڈھانپنے کا مقصد دراصل سرد ممالک کے عوام کو ڈھانپنے کی کوشش نظر آتی ہے‘ لباس کے معاملہ میں تو وہاں کے عوام پہلے ہی بے نیاز ہیں‘ جیسے جیسے گرمی کی شدت بڑھتی ہے‘ مرد و زن کے جسموں پرکپڑا خال خال ہی نظر آنے لگتا ہے اس لئے سائنس دانوں نے یہ اچھا فیصلہ کیا ہے کہ اس سے پہلے کہ ٹھنڈے ممالک کے عوام بالکل بے لباس ہو جائیں اور حکومت کو اعلان کرنا پڑے کہ ’’نگاہیں اٹھا کر چلنا منع ہے‘‘ اس برہنہ سورج کو ہی لباس پہنا دیا جائے جو زمین پر بسنے والوں کو بے لباس کرنے پر تلا ہوا ہے۔
٭…٭…٭
ایک سروے کے مطابق دنیا کے 80 فیصد کسان موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ موبائل فون سٹیٹس کی علامت ہوا کرتا تھا‘ لیکن آج موبائل فونز نے محمود و ایاز کا فرق ہی مٹا کر رکھ دیا ہے۔ سروے میں صرف کسانوں کا ہی ذکر کیا ہے حالانکہ ہمارے ہاں تو گدا گر بھی اس سہولت سے مستفید ہو رہے ہیںجبکہ گلی محلے کے خاکروب بڑی شان سے ایک دوسرے کو موبائل فون پر اطلاع دیتے نظر آتے ہیں کہ ’’اس گلی کے گٹر صاف کر دیئے ہیں‘ تم فلاں گلی کے گٹر دیکھ لینا۔‘‘
دنیا اس وقت ترقی کے بام عروج پر ہے‘ یہی وجہ ہے کہ آج انسانی زندگی میں جتنی آسائشیں میسر ہیں‘ وہ ترقی کی مرہون منت ہیں۔ انٹرنیٹ جس نے اس دنیا کے تمام فاصلے سمیٹ کر رکھ دیئے‘ ایک اچھی کاوش ہے لیکن ترقی کے کسی عنصر کو اس قدر زیر استعمال رکھنا کہ وہ بیماری بن جائے‘ یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ انٹرنیٹ کی بیماری بہت زیادہ عام ہو چکی ہے‘ خاص کر نوجوان نسل تو بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ سکول و کالج سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گھروں اور نیٹ کیفے میں بیٹھ کر کئی کئی گھنٹے انٹرنیٹ پر چیٹنگ وغیرہ کرتے اور اپنے عالمی دوستوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ انٹرنیٹ ایک نشہ ہے‘ اسے استعمال کرنے والا گھنٹوں اس میں محو رہتا ہے۔ بالخصوص چھوٹی عمر کے بچے تو اس پر مسلسل گیمز کھیل کر بھینگے پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ خدارا ! اس سہولت ایسے بے دریغ استعمال نہ کیا جائے کہ اس کا استعمال کرنے والا ذہنی مریض بن جائے اور ہسپتال جا پہنچے۔