سر راہے
کوئی مقدس گائے نہیں۔ میں بھی قانون توڑوں تو پولیس ایکشن لے: عمران خان
کاش ایسا ہونے لگے تو حقیقت میں پاکستان میں تبدیلی آ جائے گی‘ جہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے نظر آئیں گے۔ بس خیال رہے کہ بکریوں کے سینگ اور شیروں کے دانت نکالے جا چکے ہوں۔ مقدس گائے ہو یا بیل ان کو ہمارے ہاںکبھی کبھار پر قانون کے نام پر مار گرایا جاتا ہے۔ مگر سفید ہاتھی جو ہمارے ہاں ہر محکمہ میں ہر ادارے میں ہر حکومت میں ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں ان کے خلاف کبھی کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا جس کی وجہ سے یہ بدمست اور منہ زور سفید ہاتھی ہر جگہ تباہی پھیلا رہے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ اگر میں بھی قانون توڑوں تو پولیس ایکشن لے۔ ابھی تک وزیر اعظم کا اپنے سیاسی کیرئیر میں پولیس سے پالا نہیں پڑا۔ ورنہ وہ ایسی کسی خواہش کا اظہار تک نہ کرتے۔ اس لیے وہ بڑی محبت سے پولیس کو سب کے خلاف ایکشن لینے کا کہہ رہے ہیں۔ پولیس والے بھی بڑے سیانے ہیں وہ ایسی باتوں کا مطلب خوب نکال لیتے ہیں۔ ہاتھ وہ اسی پر ڈالتے ہیں جو کمزور ہوتا ہے۔ طاقتور اور بااثر کے تو وہ قریب سے بھی نہیں گزرتے۔ اگر پولیس والے سب سے یکساں سلوک کرتے تو آج جو ہمارے معاشرے میں انارکی پھیلی ہے وہ بہت کم ہوتی۔ ویسے سوچنے کی بات ہے کیا وزیراعظم پولیس کے اس زریں کردار سے آگاہ نہیں ہیں۔ جہاں سب سے زیادہ ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ باقی سب کو چھوڑیں اگر پولیس اپنے اندر ہی قانون شکن عناصر پر ہاتھ ڈالے تو آدھی سے زیادہ برائیاں اپنی موت مر جائیں گی۔
٭٭٭٭٭
امریکی صدر نے پاکستانی نژاد لینا خان کو فیڈرل ٹریڈ کمشن کی سربراہ نامزد کر دیا
یہ پاکستانی نژاد 32 سالہ لینا خان کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنے وطن سے دور جو بھی پاکستانی گیا وہ کامیابی کی انتہائوں پر پہنچا۔ لینا خان کا تعلق لاہور سے ہے وہ گیارہ برس کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ امریکہ منتقل ہوئی تھیں۔ ان کی محنت رنگ لائی ان کی تعلیم اور قابلیت دیکھ کر امریکی سینیٹ نے انہیں 639 ووٹوں سے ایف ٹی سی کمشنر مقرر کرنے کی منظوری دی۔ محنت اور سچی لگن انسان کو کہیں ناکام ہونے نہیں دیتی۔ دیارِغیر میں جہاں کوئی سفارش نہیں چلتی ہمارے پڑھے لکھے جوان اپنی صلاحیتیں منوا رہے ہیں۔ خدا کرے ہمارے یہ نوجوان ملک کے حقیقی سفیر ثابت ہوں اور اپنے امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اپنے ملک و قوم کے لیے بھی سوچیں۔ پاکستان کے عزت وقار میں اضافے کی بھی کوشش کریں۔ہم سب پاکستانی جہاں ہیں وہ وطن عزیز کی بہتری کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہوضرور کریں۔ خاص طور پر ملک کی معاشی حالت اور نیک نامی میں اضافہ کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ کیا عجیب بات ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور صلاحیتوں کے حامل ایسے بے شمار نوجوان خود ہمارے ملک میں ڈگریوں کا بوجھ اٹھائے سڑکیں ناپتے پھرتے ہیں۔ نااہل اور سفارشی لوگ ان کا حق مار کر اعلیٰ ملازمتوں اور پوسٹوں پر فائز ہیں۔ اگر حکومت انہیں ان کی قابلیت کے مطابق ملازمت فراہم نہیں کر سکتی تو کم از کم ایسے ہونہار افراد کو ملک سے باہر بھیجنے میں ہی معاونت کرے تاکہ وہ بیرون ملک جا کر اپنے ملک کا نام روشن کر سکیں۔
٭٭٭٭٭
گالی پنجاب کا کلچر ہے: روحیل اصغر ۔ یہ غلیظ سوچ ہے۔ فرخ حبیب
اول تو بات ہی غلط ہے کہ گالی کوئی کلچر ہے۔ یہ ذاتی طور طریقہ تو ہو سکتا ہے مگر کسی معاشرے کا کلچر نہیں۔ پنجاب قدیم دور سے صوفیوں ، سنتوں اور سادھوئوں کا مسکن رہا ہے۔ پانچ دریائوں کی یہ سرزمین نرم لوگوں کا مسکن رہی ہے۔ محبت ، دلیری اور عزت یہاں کے کلچر میں شامل ہے۔یہ گالی گلوچ تو عام بازاری لفنگوں کا خاصہ ہوتی ہے۔ یہ بھلا کلچر کہاں سے بن گئی۔ بہت سی زیادہ گہری یاری دوستی میںعامیانہ قسم کی زبان ضرور استعمال ہوتی ہے مگر ہر ایک کے ساتھ اس لب و لہجے میں بات نہیں ہوتی۔ ذاتی اظہار خیال اور بکواس کو کلچر نہیں کہتے۔ اب روحیل اصغر نے جذبات میں آ کر جو کہا وہ ان کا ذاتی فعل تھا ، اسے پنجاب کے کلچر سے جوڑنا مناسب نہیں۔ وزیر مملکت برائے فرخ حبیب نے بھی ذرا سخت لہجے میں بات کی ہے اور اسے غلیظ سوچ قرار دیا ہے۔ ایسے الفاظ جو کسی کے جذبات مجروح کریں کسی کی عزت نفس کو زخمی کریں ان کے استعمال کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔جو الفاظ ماں باپ ، بہن بھائی اور خاندان والوں کے سامنے ادا نہیں ہو سکتے اسے دوسروں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ پنجاب ہی نہیں پوری دنیا کے کلچر کے خلاف ہے۔ اسے کسی کلچر کا حصہ نہیں کہہ سکتے۔ ہاں البتہ رذیل طبقات نچلی ذاتوں اورگندے پیشوں سے وابستہ افراد پر کوئی پابندی نہیں وہ جو چاہیں کریں یا کہتے پھریں۔
٭٭٭٭٭
ہائی کورٹ نے مزارات پہ پارکنگ واش رومز اور جوتوں کی فیس کی وصولی روک دی
اس عدالتی فیصلے سے تو مزارات پر قابض مافیاز کی جان نکل گئی ہو گی۔ یہ انکی روٹی پانی کا ذریعہ ہے۔محکمہ اوقاف کے کرتا دھرتا آمدنی کے معقول ذریعے سے محروم ہو جائیں گے جو واش رومز، پارکنگ اور جوتا فیس کی وصولی کی مد میں بے تحاشہ کمیشن وصول کرتے ہیں۔ اب ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ سکتے ہیں۔ اس مافیا نے تو اندھیر مچا رکھا تھا۔ جوتے کی 5 روپے مقرر فیس کی بجائے 25 روپے، واش رومز کے 10 روپے اور پارکنگ کی فیس تو 20 سے 50 روپے تک بڑے دھرلے سے وصول کی جاتی ہے۔ غریب لوگوں کے لیے تو مزارات پر جانا ہی مشکل بنا دیا گیا تھا۔ غریب مسائل کا مارا انسان ان مزارات پر سکون قلب اور دعا کے لیے جاتا ہے۔ مگر یہ فیس کے نام پر لوٹ مار کرنے والے ان کے مسائل اور پریشانیاں بڑھا دیتے ہیں۔ان مزارات سے ماہانہ کروڑوں کی آمدنی ہوتی ہے۔ مگر وہاں اس میں سے بہت معمولی رقم زائرین کی سہولت اور آرام کے لیے خرچ ہوتی ہے۔ چند ایک بڑے مزارات کو چھوڑ کر باقی مزارات کی حالت دیکھیں تو افسوس ہوتا ہے۔ وہاں کوئی سہولت دستیاب نہیں۔ مزارات کے اردگرد گندگی کے ڈھیر لگے رہتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد نے وہاں ڈیرے جمائے ہوتے ہیں۔ منشیات فروشی عام ہے۔ اغوا اور لوٹ مار کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ محکمہ اوقاف نے ان مزارات کو صرف کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ ان مزارات کے تقدس کو بحال کرتے ہوئے اگر یہاں آنے والے زائرین کو ہر ممکن رہائش اور خوراک کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ یہاں طبی مراکز قائم ہوں۔ تعلیمی و تربیتی ادارے بنائے جائیںتاکہ ان مزارات کا اصل اور حقیقی تشخص بحال ہو۔
٭٭٭٭٭