ظالم کا سہولت کار نظام
جب بھی کوئی ظلم کی داستان سامنے آتی ہے اور ظالم کی ہر طرح سے سپورٹ کرتے ہوئے سسٹم کو کمزور ہونے کی بجائے مزید طاقتور ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں تو جس اُمید پر دنیا قائم ہے وہ اُمید ٹوٹنے لگتی ہے ۔پچھلے 50 سال میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ظلم کا معاشرہ اسی طرح اپنے جوبن پر ہے جھوٹے مقدمات اسی طرح درج ہورہے ہیں اور بھاری رقوم لے کر صلح بھی ہورہی ہیں حالانکہ حدود سمیت بعض مقدمات میں صلح ہو ہی نہیںسکتی مگر آئے روز ہورہی ہے کیونکہ ’’صلح کے عوضانے میں سے ہر کسی کو حصّہ بقدر جُثّہ‘‘ ملنا ہوتا ہے۔
1997ء میں جب میں ملتان آیا ۔ہائیکورٹ بار کے ایک سینئر ممبر سے گپ شپ لگی ،میں نے اس خطّے میں وکالت اور مقدمات کے حوالے سے مختلف سوالات کیے تو انہوں نے ایک حیران کُن جملہ کہا کہ جنوبی پنجاب ، اپر سندھ اور بلوچستان کے اکثریتی علاقوں میں فیصلے ججوں کی بجائے وڈیروں کے ڈیروں پر ہوتے ہیں اور وہ جسے حکم دے دیں کہ اپنا مقدمہ اٹھا لو وہ اٹھا لیا جاتا ہے اورجس مقدمے کو وہ طول دینا چاہیں اسے حسبِ خواہش طول مل جاتا ہے کیونکہ یہاں کے محکوم عوام بعض اوقات اس حد تک مجبور دیکھے گئے ہیں کہ ان کی بچیوں کی شادی کے فیصلے بھی طاقتور لوگ ہی کرتے ہیں۔ رسی تو مکمل طور پرجل چکی ہے مگر بل اب بھی موجود ہے ۔ وڈیرہ ازم ختم ہوچکا ہے ، زمینیں تقسیم در تقسیم ہوگئی ہیں مگر حاکم اور محکوم کی سوچ اب بھی اسی طرح باقی ہے ۔
میرے سامنے بڑی ہی مزیدار خبر ہے ۔جس میں ایک معروف ڈاکٹر نے اپنے تلخ تجربے کو شیئر کیا ہے جو جنوبی پنجاب، سندھ ،بلوچستان اور کے پی کے کی ڈی آئی خان کی بیلٹ کے حالات اور ماحول کی بھرپور عکاسی کرتا ہے ۔ مذکورہ معالج کہتے ہیں کہ 1977ء میں میری عمر دس سال تھی اور تب میں ضیاء الحق کو بہت پارسا انسان سمجھتا تھا ۔ شعور کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جب انکی بعض پالیسیوں سے بدظن ہوا تو پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار چونکہ ایک بلوچ سردار تھے لہٰذا میراووٹ انہی بلوچ سردار کے کھاتے میں چلاگیا۔ اسلامی جمہوری اتحاد بنا توپاکستان پیپلز پارٹی سے میرے فکری اختلافات پیدا ہوچکے تھے تو میں نے آئی جے آئی کے انتخابی نشان سائیکل پر مہر لگانے کا فیصلہ کیا۔ تب آئی جے آئی کے وہی بلوچ امیداوار تھے جو گزشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے ۔ سائیکل نے مایوس کیاتو شیر کو آزمانے کا فیصلہ ہواتو شیر کے نشان پر میرا ووٹ تیسری مرتبہ بھی انہی بلوچ سردار کو گیا اور وہ تیسری مرتبہ بھی کامیاب ہوگئے۔ شیر کے ہاتھوں اپنی سوچ کے وجود کو بری طرح زخمی کروانے کے بعد تحریک انصاف میں مجھے تمام اچھائیاں نظر آنے لگیں اور میں نے سوچ سمجھ کر پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا مصمم ارادہ کرلیاکہ اب میں دس بارہ سال کا بچہ نہیں بلکہ 52 سال کے سینئر سیٹیزن کہلائے جانے کے مرحلے میں داخل ہو رہا تھا ۔ جب پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا مرحلہ آیا تومیرا ووٹ چوتھی مرتبہ پھر اسی بلوچ سردار کو چلا گیا ۔ بقول مذکورہ معالج یہ میرا اکیلے کا دکھ نہیں بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کا دکھ ہے جو میں اپنی زبان سے ادا کررہا ہوں ۔ بقول مذکورہ معالج 70 کے قریب ایسے نام ڈھونڈ نکالے جو تقریباً ہر پارٹی کے امیدوار بن کر بار بار اسمبلیوں میں پہنچ چکے ہیں، اور جو دنیا سے چلے گئے تو انکے بیٹے اور پوتے اسی حلقے میں ، اسی طرح سے ۔اسی قسم کی عوامی خدمت کررہے ہیں ۔اب وہ سراپا سوال ہیں کہ میرے جیسے لاکھوں دیگر لوگوںکا قصور کیا ہے؟ مجھے کسی کے نام سے کوئی غرض نہیں لہٰذا میں وہ سارے نام شامل نہیں کررہا ۔مجھے تو صرف اتنا پتہ ہے کہ جس کے دادا نے جھوٹے مقدمات کی سیاست کی آج اس کا پوتا بھی وہی سیاست کر رہا ہے۔
میں نے ایک مرتبہ اچھی شہرت کے حامل ایک امیدوار سے سوال کیا کہ وہ الیکشن جیت جائینگے ، وہ ہنس کرکہنے لگے نہیں۔میں نے کہا آپ ایسا کیوں سوچ رہے ہیں حالانکہ آپ محنت بھی کر رہے ہیں اور حلقے کے عوام آپ کو پسند بھی کرتے ہیں ۔انہوں نے جواباً کہا آپ کسی ایم این اے کے حلقے سے چار پانچ تھانوں کے ایس ایچ او تبدیل کروا کراپنی مرضی کے لگوا لیں اور الیکشن جیت لیں۔ انہوں نے مجھ سے سوال کیاکہ آپ نے کبھی غورکیا کہ الیکشن سے دو چار ماہ قبل اشتہاریوں کی پکڑ دھکڑ اور مقدمات کی بھرمار کیوں ہوتی ہے؟ پھر کن شرائط کے عوض صلح ہوتی ہے ۔ بعض اوقات ایک ایک ملزم کے پیچھے اس کی پوری برادری کو ایس ایچ او کے حکم پر ووٹ دینے پڑجاتے ہیں حتیٰ کہ حلف بھی تھانوں میں ہوتے ہیں کسی کے مقدمات التوا میں رکھ لیے جاتے ہیں اور کارروائیاں مؤخر کردی جاتی ہیں۔ پھر ان کارروائیوں کے نتائج الیکشن میں اُمیدوار کی کامیابی اور ناکامی کے میرٹ پر سامنے آتے ہیں۔اگر امیدوار کامیاب ہوجائے تو جنہوں نے کھل کر ہارنے والے امیدوارکی سپورٹ کی ہوتی ہے انکے خلاف کارروائیاں تیز اوران پر زندگی تنگ کردی جاتی ہے ، انہیں مختلف قسم کے بے بنیاد مقدمات میں الجھایا جاتا ہے اور ان کا اگلے انتخابات تک زیادہ تر وقت تھانوں اورکچہریوں میں گزرتا ہے۔ پولیس کو سب پتہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جھوٹے مقدمات درج کیے ہیں اور جسے پکڑ رکھا ہے وہ صریحاً بیگناہ ہے ۔
اس خطے میں نچلے درجے سے لے کر ایس پی کی سطح تک شاید ہی کسی کو اس آفاقی قول کا خیال ہو کہ مذکورہ سیاستدان کے سامنے تواسکی پیشی عارضی ہے البتہ 50 ہزار سالوں پر مشتمل اس ایک دن جسے ’’روزِ محشر‘‘ کہا جاتا ہے وہاں کی پیشی تو طے شدہ اور ہرصورت میں ہونی ہے ۔مگر شاید ہی بے گناہوں پر پیشیوں کا بوجھ ڈالنے والا کوئی ایساہو جسے وہ پیشی یاد ہو۔جن علاقوں کا میں نے اُوپر ذکر کیا ہے وہاں آٹھ دس افراد کا کسی ایک ایف آئی آر میں شامل تفتیش کیا جانا معمول کی بات ہے اور کوئی بھی تفتیش سے اس وقت تک نہیں نکلتا جب تک وہ تفتیشی کی خواہشات کی تشخیص کرکے اسکے حسبِ مرض دوا کا انتظام نہ کرلے۔جنوبی پنجاب کے ضلع خانیوال میں چند سال قبل ایک تفتیش ایسی بھی ہوچکی ہے جس میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد کو شامل تفتیشں کیا گیا تھا اور اس تفتیش کی برکات سے درجنوں اس قدر فیضیاب ہوئے کہ انہیں اپنی آئندہ زندگی میں شاید نوکری کی ضرورت بھی باقی نہ رہی تھی۔’’کسی نوجوان نے ایک معروف نجومی کو اپنا ہاتھ دکھا کر پوچھا کہ میرے حالات کب بہتر ہوں گے اورکب تک آسودگی آئے گی ۔ نجومی نے اسکے ہاتھ کا تفصیلی جائزہ لیکر کہا کہ 50 سال تک حالات ایسے ہی رہیں گے اسکے بعد آپ عادی ہوجاؤگے۔‘‘ ظلم کے انجام کی بیخ کنی کے حوالے سے پاکستان کے تناطر میں بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے ۔…؎
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دکان اپنی بڑھا گئے