تین تصویریں
مون سون سے قبل پہلی بارش نے ملتان میں ترقیاتی کاموں کا بھانڈا کچھ اس طرح چوراہے میں پھوڑا کہ عوام کو تو پہلے ہی کوئی سمجھ نہیں آتی اس مرتبہ انتظامیہ کو بھی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کی پردہ پوشی کیسے کی جائے۔ کچہری سے گھر آنے کیلئے تقریباً ڈیڑھ بجے دوپہر نکلا اور تقریباً دو گھنٹے کے بعد بوسن روڈ بائی پاس کے قریب گھر پہنچا۔ ابھی گاڑی سے باہر بھی نکلا تھا کہ موبائل پر اطلاع ملی کہ نماز عصر کے بعد لوہاہٹ مارکیٹ کے قریب جنازہ گاہ میں ایک عزیزہ کی نماز جنازہ پڑھنی ہے گھر سے ایک مرتبہ ہمت کر کے پھر باہر نکلے بوسن روڈ پر کھڑا پانی عبور کر کے چونگی نمبر 9 سے میٹروکے ساتھ ساتھ چوک دولت گیٹ سے پہلے مچھلی مارکیٹ والے چوک پر ٹریفک پولیس نے بیریئر لگا کر سڑک بند کر رکھی تھی اور وارڈن بڑے آرام سے موبائل سے کھیل رہے تھے جبکہ لوہے اورپلاسٹک کے دیوہیکل پائپ لگا کر سیوریج کا پانی نکالا جا رہا تھا ٹریفک کافی آگے جاکر پھر واپس دولت گیٹ کی طرف آرہی تھی وہاں کوئی ٹریفک وارڈن موجود نہ تھا ایک دوسرے سے آگے نکلنے کیلئے گاڑیاں اور موٹرسائیکل ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف تھے۔
خیر خدا خدا کر کے یہ مرحلہ عبور کر کے چوک دولت گیٹ پہنچے اور دہلی گیٹ کی طرف عین محترم وزیر خارجہ کے گھر کے سامنے پہنچے تو دہلی گیٹ سے پہلے پٹرول پمپ سے لیکر جہاں تک علاقہ نظرآرہاتھا گھٹنے گھٹنے پانی میں ڈوبا ہوا تھا وہاں سے مجبوراً واپس ہو کر دولت گیٹ سے ہوتے ہوئے بذریعہ النگ پاک گیٹ جانے کی کوشش کی تو النگ پر کھڑی ایک کرین آڑے آئی۔ کرین آپریٹر نے بتایا کہ النگ پرکھدائی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے راستہ بند ہے۔ کوئی چارہ نہ پاکر واپس جانے کا ارادہ کر کے دولت گیٹ سے حسین آگاہی کا رُخ کیا تو عملدار کالج سے آگے ایک سیل رواں نظر آیا اس طرف رُخ کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور قلعہ کی طرف روانہ ہوئے۔ قلعے کے اندر سے جانے کی اجازت نہ تھی باہر والی سڑک سے ہوتے ہوئے گھنٹہ گھر آئے جہاں سے بوہڑگیٹ سے حرم گیٹ جانے کی کوشش کی مگر شاہین مارکیٹ سے پہلے پانی پھر راستہ روکے ہوئے تھابالآخر بوہڑ گیٹ النگ سے حرم گیٹ جانے کی ٹھانی باوجود ٹریفک کے سیلاب کے ہم تقریباً دو گھنٹے کے بعد حرم گیٹ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ۔
لوہا مارکیٹ کی طرف روانہ ہوئے تو لوہا مارکیٹ کے آغاز سے ہی پانی ٹھاٹھیں مارتا نظر آیا چاروناچار اسی پانی سے گاڑی گزار کر لوہاہٹ جنازہ گاہ کے گیٹ پر اترا تو معلوم ہواکہ جنازہ ہونے کے بعد میت پاک مائی قبرستان روانہ ہو چکی ہے میں نے لواحقین سے افسوس کرنے کیلئے پاک مائی قبرستان جانے کی ٹھانی۔ پل شیدی لعل سے پاک مائی قبرستان پہنچے تو وہاں سے چوک شاہ عباس تک دریا بہہ رہا تھا لواحقین سے افسوس اس انداز میں ممکن ہواکہ ایک ہاتھ سے شلوار سنبھالی ہوئی تھی اور دوسرے ہاتھ میں جوتے تھے۔
اس انداز میں افسوس کے بعد بالآخر گھربھی آنا تھا۔ پاک مائی قبرستان سے اسی دریا کو عبور کر کے چوک شاہ عباس پہنچے تو بائیں ہاتھ غلہ منڈی تک اور دائیں ہاتھ لکڑمنڈی تک پانی کا سمندر تھا۔ دائیں ہاتھ لکڑمنڈی جانے کا قصد کیا اور بالآخر ڈبل پھاٹک سے ریلوے کراسنگ کے پل پر پہنچے تو خشکی نظر آئی اور خدا خدا کر کے گھر پہنچے۔ یہ سارا علاقہ وزیر خارجہ کا حلقہ ہے جس میں دو ایم پی اے سلمان نعیم اور جاوید انصاری ہیں۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ سلمان نعیم کا حلقہ وزیر خارجہ کا متحارب ہونے کی وجہ سے فنڈز سے محروم ہے مگر خود وزیر خارجہ اور جاوید انصاری کے بارے میں تو یہ بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ وہ تو صاحب اقتدار ہیں۔ سیوریج کا معاملہ ملتان کا قدیمی مسئلہ ہے جس کا تدارک عارضی علاج نہ ہے بلکہ اس کا علاج مستند ذرائع سے ہونا چاہئے۔ ملتان میں نکاسی آب کیلئے شہر کو کم از کم چھ حصوں میں تقسیم ہونا چاہئے ہر حصے کے پانی کے دباؤ کے تحت لائن اور ڈسپوزل ہونا چاہئے اور اسی تناسب سے ہر حصہ میں عملہ تعینات ہونا چاہئے باقاعدہ سروے کرایا جائے اور پانی کے بہاؤ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو کامیابی ہو سکتی ہے۔ بارش سے ایک روز قبل تک چونگی نمبر 9 پر ایک بہت بڑا تشہیری بورڈ وزیراعلیٰ‘ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ملتان کی چھاتی پر ہاتھ رکھے تصاویر سے آراستہ تھا جس پر نکاسی آب کی شکایات کیلئے نمبر بھی نمایاں طور پر تحریر کئے گئے مگر بارش والے دن سے وہ تصاویر اور نمبر دونوں غائب ہیں صاحب حال سے دریافت پر معلوم ہوا کہ تینوں اصحاب نے عوامی خدمت کیلئے سینہ پر ہاتھ نہیں رکھا ہوا تھا بلکہ سینہ میں تکلیف ہونے کی وجہ سے علاج کیلئے رخصت ہو گئے ہیں۔ جنگ کے زمانے میں ایک میراثی فوج میں بھرتی ہونے چلا گیا۔ بڑا خوبرو اور قدآور نوجوان تھا لہٰذا قدکاٹھ کے تحت منتخب ہو گیا تو میراثی نے تین کام کرنے کیلئے تین شرائط بتائیں پہلی شرط تھی کہ وہ اگلے مورچوں پرکام نہیں کریگا تو افسران نے فیصلہ کیا کہ مورچوں کے پیچھے بھی کام ہوتا ہے لہٰذا میراثی کی پہلی شرط تسلیم کر لی گئی دوسری شرط تھی کہ وہ دھوپ میں کام نہیں کر سکتا اس شرط کو بھی بالآخر تسلیم کر لیا گیا تو تیسری شرط تھی کہ جنگ کے دنوں میں اسے چھٹی ہو گی۔ انتخاب کرنے والے پریشان تھے عوام بھی اسی طرح پریشان ہیں ایسی ہنگامی صورتحال میں نہ صرف عوامی نمائندے بلکہ عوامی خادم بھی چھٹی پر ہوتے ہیں اور عوام کا اللہ مالک ہوتا ہے۔