وفاقی اور صوبائی بجٹ پنجاب اور جمہور کی توقعات
موجودہ حکومت نے اپنے دور حکومت کا تیسرا اور کرونا19وائرس کا دوسرا بجٹ پیش کیا ہے وفاقی بجٹ جس کا تخمینہ 8487ارب روپے لگایا گیا ہے اور پنجاب بجٹ 2653ارب روپے کا پیش کیا گیا ہے۔ ہرسال کی طرح اس سال بھی شامل اعدادوشمار پیش کئے گئے ہیں وہ اس کو غریب دوست بجٹ قرار دیتے ہیں بجٹ ہمیشہ اپنی آمدن اور اخراجات کو متوازن بنانے کیلئے تیارکیا جاتا ہے ۔ مگر ملکی تاریخ میں ہم نے ہمیشہ خسارے کا بجٹ ہی پیش کیا ہے۔ یعنی ہمارے اخراجات بڑھتے جارہے ہیں اور قرضوں پر عائد سود کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے مگر آمدن کے ذرائع کم ہوتے جارہے ہیں جو آمدن آتی ہے وہ کرپشن اور کمیشن سے گزرتی ہوئی جب حکومتی خزانے کا حصہ بنتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس سے تو کوئی خرچ مکمل ادانہ کیاجاسکتا نتیجاً مزید ٹیکس لگائو ، قرض لو یا پھر چینی پٹرول آٹا مافیا کے شکنجے میں پھنس کر کچھ آمدن حاصل کرو ۔سال2021-2022کے بجٹ کا جائزہ معاشی اور سماجی ترقی کے پہلو سے لیتے ہیں۔ اگر تو معاشی ترقی کی بات کریں تو حکومت وقت نے بجٹ میں ٹیکسوں میں چھوٹ دی ہے آبی گزرگاہوں کی تعمیر اور مرمت کیلئے 3ارب ، داسو ڈیم کیلئے57ارب دیا میر ڈیم کیلئے23ارب ، ممہندڈیم کیلئے6ارب ، نیلم جہلم پروجیکٹ کیلئے 14ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کیلئے8ارب او رمعاشی ترقی کا ہدف8.5فیصد رکھا گیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا بجٹ میں اگر سماجی ترقی کے اعدادوشمارکاجائزہ لیں تو یہ صرف اعدادوشمار کا ہیر پھیر ہی نظر آتا ہے کیونکہ 2020-2021کے بجٹ میں بھی سماجی ترقی ، انسانی ترقی اور غریب کی زندگی میں بہتری لانے کی بات کی گئی تھی۔ مگر اس بجٹ کے پیش ہونے سے 10دن پہلے ادارے شماریات کی رپورٹ نے سب کی آنکھیں کھول دی ہیں ۔ اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران چینی 16.51روپے فی کلو مہنگی ہوئی ، گوشت104روپے کلو ، آٹا 20کلو کا تھیلا118روپے مہنگا ہوا اور زندہ مرغی 51.54روپے ، گھی کا ڈبہ ڈھائی کلو والا129روپے مہنگاہوا، دودھ 10.79روپے فی لیٹر ، دہی 14.45روپے فی کلو جبکہ انڈے 30.61روپے فی درجن مہنگے ہوئے ۔ سوال یہ ہے کہ جس ملک کی آبادی میں سے 5کروڑ 40لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکرتے ہوں اور کرونا وائرس کی وجہ سے ان کی تعداد میں مزید 1کروڑ اضافہ ہوگیا ہو تو2021-2022کے بجٹ میں موجود 20لاکھ روپے کا آسان قرضہ، احساس پروگرام کے 260ملین روپے، ترقیاتی فنڈز کے 100ملین ، کامیاب نوجوان کے 10ملین کیا ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں شمار ہوتا ہے جہاں ہر شخص اپنی آمدن کا اوسطاً46%اپنی خوراک کے حصول پر خرچ کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کا شمار گندم پیداکرنے والے ملک کے حوالے سے8بڑے ملکوں میں کیاجاتا ہے۔ مگر زرعی ترقی، کسان کی ترقی، کسان کی فلاح وبہود کے لئے صرف12ارب رکھے ہیں ۔ یعنی جس زمین نے پاکستان کی عوام کو زندہ رہنے کیلئے خوراک مہیا کرنی ہے ہم نے اس کی ترقی کا ہدف صرف5%رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کی 25کروڑعوام کی صحت کی بہتری کیلئے30ارب تو رکھ دئیے ہیں مگر پچھلے سال وزارت صحت کیلئے مختص رقم کیلئے 39%فنڈ خرچ ہوسکا یعنی ملک میں صحت کی ایمرجنسی کے ہوتے ہوئے61%فنڈ کو خرچ ہی نہیں کیا گیا کیونکہ نیب کا خوف اور ایماندار راہنما کے ہوتے ہوئے کرپشن کر کے پکڑے جانے ہے اور وزارت کے تبدیل ہونے کا خوف ہے۔ سوال یہ ہے کہ گذشتہ 2سالوں کے دوران کرونا وائر س نے بچوں کی تعلیم اور تعلیم شرح کو SDGsگولز کے ہدف تک پہنچانے کیلئے ایک بڑا سوالیہ نشان درمیان میں ہے۔ کیا بجٹ میں مختص 92ارب روپے تعلیمی شرح 62%سے89%تک پہنچانے میں کافی ہے۔ نیب اور اپنے آپ کو ایماندار بنانے کے خوف پنجا ب حکومت میں بھی موجود ہے۔ یعنی گذشتہ 11ماہ کے دوران ترقیاتی منصوبوں میں مختص رقم میں سے68%رقم خرچ ہوئی حالیہ بجٹ میں پنجاب حکومت نے سکولوں میں 10ہزار نوکریوں کا اعلان اور19نئی یونیورسیٹاں بنانے کا اعلان تو کیا ہے مگر گورننس کے مسائل حل نہیں ہونگے تو یہ اعلانات ہی رہ جائینگے یا پھر ترقیاتی بجٹ کی طرح ان کا بجٹ بھی کلپس ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی عوام گذشتہ 3سالوں سے جمہوریت کی نرسریوں میں پھول کھلتے ہوئے دیکھنے کیلئے بے چین ہے حکومت میں بجٹ میں بلدیاتی الیکشن کیلئے5ارب روپے مختص کئے ہیں کیا یہ پھول اسی سال اس بجٹ میں کھل جائیں گے۔ دیکھا جائے توموجودہ بجٹ صنفی حساسیت کا بجٹ نہیں ہے ملکی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے مگر ماسوائے اینٹی ریپ فنڈ کے کوئی بھی قابل ذکر خواتین کی ترقی کا منصوبہ بجٹ کا حصہ نہیں بنایاگیا سوال یہ ہے کہ ہم تاجر برادری کے ساتھ ملک کے ہر فرد کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانے کی بات کرتے ہیں تاکہ ہماری آمدن بڑھ سکے۔ مگر ہمارے ایوان میں موجود عوامی نمائندے جن کی تعداد سینٹ میں104،قومی اسمبلی میں 342اور صوبائی اسمبلیوں میں749ہیں اخراجات کو کم کرنے کا فارمولااس طرف کیوں نہیں استعمال ہوتا اور عوامی نمائندوں میںموجود کاروباری افراد پر ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے پر پابندی ہے کیا؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا گارنٹی کہ آئندہ 3ماہ کے اندراندر کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا کیونکہ اگر تو ایسا ہوا تو ہم اس بات پر یقین رکھیں کہ مہنگائی کا سونامی کم از کم تنخواہ 20ہزار والے فرد کو بھی نہیں بچاسکے گا ہماری تجاویز یہ ہیں کہ
1۔فوڈ کارڈ صحت کارڈ ، راشن کارڈ ، لنگر خانے جیسے منصوبوں کا رخ خود مختیاری کی طرف موڑ ا جائے ، لوگوں کو مچھلی پکڑ نا سکھایا جائے ، فنی تربیت کی طرف رحجان پیدا ہو۔
2۔خواتین کی خودمختیاری کویقینی بنانے کیلئئے صنفی حساسیت بجٹ کا اعلان کیاجائے
3۔ملک میں اس وقت 23.8ملین زرعی شعبے کے مزدور ہیں اور37.9ملین صنعتی مزدور کام کررہے ہیں23.8ملین میں سے72%غیر روائتی بغیر رجسٹر مزدور ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بنیادی ملازمتی حقوق سے محروم ہیں۔ ان لوگوں کو قومی دائرے میں لانے کیلئے زرعی شعبے کو ترقی دی جائے۔
4۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے بجٹ میں جو178ارب روپے رکھے گئے ہیں حقیقی معنوں میں اس کا استعمال ہو تاکہ لوگوںمیں رواداری برداشت اور ہم آہنگی کا کلچر فروغ پاسکے۔
5۔پنجاب حکومت نے کاروباری افراد پر سالانہ 2ہزار فکس ٹیکس اور 10یا زائد ملازمین رکھنے والوں پر4ہزار ٹیکس عائد جو کیا ہے اس پر عملدرآمد کرانے کیلئے شفافیت پر مبنی سسٹم متعارف کرایاجائے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس دینے والے افراد کیلئے مراعات اور بلامعاوضہ بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے۔
6۔صوبائی بجٹ کا35%یعنی189ارب ترقیاتی فنڈ جنوبی پنجاب کیلئے جو رکھیں گئے ہیں وہ حوصلہ افزاء ہے مگر اچھی طرز حکمرانی پنجاب کیلئے ایک چیلنجز ہے۔ اسکو بہتر بنانے کیلئے قابل اور متحرک صوبائی ٹیم کا حصہ بنیں۔