سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے اسلامی اقدار کا فروغ ناگزیر ہے:ہمدرد شوریٰ
کراچی ( نیوزرپورٹر) کراچی یونی ورسٹی کے سابق پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اخلاق احمد نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی دونوں اثرات ہیں۔ اس کا استعمال سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے۔ اس کا کثرت سے استعمال جذبات پر بھی اثرانداز ہوتا ہے، مزاج میں فرق آجاتا ہے اور استعمال کنندہ معاشرے سے الگ تھلگ ہو جاتا ہے، تاہم سینئر لوگوں کے لیے یہ کارآمد چیز ہے، اس کے ذریعے باہر بیٹھی ہوئی ان کی اولاد سے ان کا تعلق قائم رہتا ہے۔ وہ گزشتہ روزجسٹس (ر) حاذق الخیری کی زیر صدارت ’’سوشل میڈیا خطرات و خدشات‘‘ کے موضوع پر شوریٰ ہمدرد کراچی کے اجلاس سے ہمدرد پاکستان کے کارپوریٹ آفس، بحریہ ٹائون کراچی میں خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بڑے بڑے اسکالرز اس کا استعمال کر رہے ہیں، تاہم ان کا استعمال مثبت ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے علاج معالجے کے میدان میں انقلاب آیا ہے ، اس کے ذریعے دوائوں کا انتخاب اور حصول بھی ممکن ہوگیا ہے۔ اجلاس میں ہمدرد فاونڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد بھی موجود تھیں۔ صدر مجلس (ر) حاذق الخیری نے کہا کہ سوشل میڈیا کو ریاست کے ایک ستون کی سی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے اس کا صحیح استعمال انقلاب برپا اور معاشرے کی تشکیل نو کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ یہ آزادیٔ اظہار کا موقع دیتا ہے جو انسان کا بنیادی حق ہے۔ کرنل (ر) مختار احمد بٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا ایک مہلک ہتھیار بن گیا ہے دنیا میں ساڑھے چار بلین لوگ اس کا استعمال کر رہے ہیں اور ان میں فی سیکنڈ دس نئے استعمال کرنے والے شامل ہو رہے ہیں۔ یہ ہماری نئی نسل کو تباہ کر رہا ہے اور اس نے پاکستان کو ایسے موڑ پر لاکر کھڑا کر دیا ہے کہ واپسی مشکل نظر آتی ہے، اس پر کردار کُشی کی جا رہی ہے جو سماجی ڈھانچے کو تباہ کر رہی ہے۔ اس کی مانیٹرنگ بہت ضروری ہے۔ مغربی ممالک اس سے فوائد حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ہاں قرآن App بنائی گئی ہے جو مستحسن اقدام ہے، ایسے کام ہونے چاہئیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر اس کا صحیح استعمال ہو تو ملک میں انقلاب آسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں قواعد و ضوابط کو درست کرنے اور مسائل کے حل کی طرف آنا چاہیے۔ ابن الحسن رضوی نے کہا کہ ایک جرمن صحافی الائس ڈیوڈسن نے اپنی کتاب ’’انڈیا بڑیڈ‘‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ 26/11 کے ممبئی واقع میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں پھر بھی ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم 26/11 کے مرتکبین کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے مزید کہا کہ بنیادی طور پر سوشل میڈیا اچھی چیز ہے مگر ہمارے ہاں اس میں بڑی خرابیاں پیدا کر دی گئی ہیں۔