طاہر جمیل نورانی
برطانوی والدین کو اپنے بچوں کی خواہش کے برعکس زبردستی شادیاں کرنے کے بڑھتے رجحان کے فوری خاتمے کے لئے ہوم سیکرٹری نے ایک نیا قانون متعارف کروانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ لڑکیوں کی آرا کے برعکس ان کی زبردستی شادیاں کرنے والے والدین کو جلد ہی سخت ترین سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہوم سیکرٹری Therasa May نے یہ اقدام حال ہی میں کئے اس انکشاف کے بعد اٹھایا ہے جس میں ہر سال 8 ہزار برطانوی لڑکیوں کی رائے اور خواہش کے برعکس ان کے والدین زبردستی انہیں شادی کے بندھن میں باندھ دیتے ہیں۔ادھر جلد متعارف کروائے جانے والے اس قانون پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی زبردستی شادیاں کرنے والے والدین یہ نہیں سوچتے کہ وہ کس قدر گھناﺅنے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زبردستی کی شادیوں میں افغانستان، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور مشرقی افریقی ممالک کے افراد سرفہرست ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس غیر اخلاقی اقدام کو فوراً روکا جائے....؟ انہوں نے مزید کہا کہ والدین کا یہ اقدام \\\"Little more then slavery\\\" ہے؟زبردستی کی شادیوں کی روک تھام کے لئے 2004ءمیں اس وقت کی لیبر حکومت نے ایک سخت قانون بنانے کا فیصلہ کیا تھا مگر 2005 کے انتخابات کے موقع پر اس قانون کی منصوبہ بندی اس لئے مکمل نہ ہو سکی کہ اقلیتی ووٹوں کے بکھر جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔اس طرح زبردستی کی گئی شادیوں کو روکنے کے احکامات کا آغاز 2008ءمیں ہوا مگر قانون اس وقت بھی نہ بن سکا۔ اب کولیشن حکومت نے ایسی غیر قانونی شادیوں کو مکمل طور پر روکنے کے لئے قانون متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ زبردستی کی گئی شادیوں سے برطانوی پاکستانی ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک کے افراد بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے زبردستی شادیوں سے متاثرہ جن ممالک کا نام لیا ہے بدقسمتی سے پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔زبردستی کی گئی شادیوں کا اگر عمیق نظری سے جائزہ لیا جائے تو یہ صاف عیاں ہے کہ بچے بچیوں کی کی گئی ان شادیوں میں اصل اتھارٹی والدین اپنے پاس رکھنے پر بضد ہیں جبکہ لڑکے لڑکی کی مرضی، رائے اور پسند اور ناپسند کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ لندن کا معروف ریڈیو سٹیشن LBC جسے برطانوی سیاستدانوں، وزراءاور قومی اداروںکے سربراہان کے علاوہ برطانوی سامعین کی سب سے زیادہ تعداد 24 گھنٹے سنتی ہے ایسے ایسے پروگرام پیش کرتا ہے کہ بعض اوقات اپنی ”پاکستانیت“ پر شرم آنے لگتی ہے۔ ایک 13 سالہ برطانوی پاکستانی بچی کو ریڈیو میں جب سے میں نے یہ کہتے سنا ہے کہ اس کے والدین نے تعطیلات کے بہانے پاکستان لے جا کر وہاں اس کی شادی کا زبردستی فیصلہ معاملہ طے کر لیا مجھے ایشیائی اور بالخصوص بعض پاکستانی والدین کے اس اقدام پر شرمندگی کا سامنا ہے۔ میں حیران ہوں، شرمندہ ہوں اور اس سوچ میں گم ہوں کہ ہمارے وہ علماءکرام کہاں گم ہو چکے ہیں۔یہ ہمارے لئے کیا کم مقام شرم ہے کہ جو کام بحیثیت مسلمان ہم نے کرنا تھے وہ آج غیر مسلم کر رہے ہیں؟؟ ”سورہ النسائ“ ہم اکثر و بیشتر پڑھتے ہیں مگر آج تک اپنی نئی نسل کو یہ آگاہ ہی نہیں کیا کہ ”شادی“ کا حقیقی کانسپٹ کیا ہے؟”لڑکے اور لڑکی“ کی شادی سے قبل آرا اور ان کی مرضی معلوم کرنا الحمد اللہ ”قرآنک ورشن“ ہے مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے بعض والدین نے اپنی ذاتی انا کی تحفظ کی خاطر ”لڑکے اور لڑکی کی پسند اور آرا“ کو کسی اور نقطے پر لے گئے ہیں۔ کاش! حضور اکرم کی سیرت مبارکہ سے ہم فیض یاب ہوئے ہوں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے خاندانی جاہ و حشمت بعض اوقات ایسے ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ بچے بچیوں کے بنیادی حقوق کی بھی ہمیں پرواہ نہیں رہتی۔ایشیائی خاندانوں کے مسائل کے حل کے لئے قائم کئے گئے بعض اداروں کی رپورٹ کے مطابق گھروں سے فرار ہونے والی لڑکیوں کی زیادہ تر تعداد کا بنیادی مسئلہ ”زبردستی کی گئی شادی“ ہے جو انہیں گھروں سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔نئے برطانوی قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی زبردستی کی شادی کے واقعات میں یقیناً کمی واقع ہو گی تاہم ایسے والدین جن کی ”انا“ کا معیار انہیں اپنے بچوں کی خوشی سے بھی زیادہ عزیز ہے یہ ضرور سوچ لیں کہ ”لڑکیوں“ کی شادی کرنے سے قبل انہیں ایک ایسے قانون کا سامنا کرنا ہو گا جس میں خالصتاً اسلامی تعلیمات کا درس شامل ہے جب شادی کے وقت لڑکی کی مرضی معلوم کرنے کا حکم موجود ہے تو پھر والدین کو مصلحت کوشی اختیار کا حق کس نے دیا ہے؟؟
برطانوی والدین کو اپنے بچوں کی خواہش کے برعکس زبردستی شادیاں کرنے کے بڑھتے رجحان کے فوری خاتمے کے لئے ہوم سیکرٹری نے ایک نیا قانون متعارف کروانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ لڑکیوں کی آرا کے برعکس ان کی زبردستی شادیاں کرنے والے والدین کو جلد ہی سخت ترین سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہوم سیکرٹری Therasa May نے یہ اقدام حال ہی میں کئے اس انکشاف کے بعد اٹھایا ہے جس میں ہر سال 8 ہزار برطانوی لڑکیوں کی رائے اور خواہش کے برعکس ان کے والدین زبردستی انہیں شادی کے بندھن میں باندھ دیتے ہیں۔ادھر جلد متعارف کروائے جانے والے اس قانون پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی زبردستی شادیاں کرنے والے والدین یہ نہیں سوچتے کہ وہ کس قدر گھناﺅنے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زبردستی کی شادیوں میں افغانستان، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور مشرقی افریقی ممالک کے افراد سرفہرست ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس غیر اخلاقی اقدام کو فوراً روکا جائے....؟ انہوں نے مزید کہا کہ والدین کا یہ اقدام \\\"Little more then slavery\\\" ہے؟زبردستی کی شادیوں کی روک تھام کے لئے 2004ءمیں اس وقت کی لیبر حکومت نے ایک سخت قانون بنانے کا فیصلہ کیا تھا مگر 2005 کے انتخابات کے موقع پر اس قانون کی منصوبہ بندی اس لئے مکمل نہ ہو سکی کہ اقلیتی ووٹوں کے بکھر جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔اس طرح زبردستی کی گئی شادیوں کو روکنے کے احکامات کا آغاز 2008ءمیں ہوا مگر قانون اس وقت بھی نہ بن سکا۔ اب کولیشن حکومت نے ایسی غیر قانونی شادیوں کو مکمل طور پر روکنے کے لئے قانون متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ زبردستی کی گئی شادیوں سے برطانوی پاکستانی ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک کے افراد بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے زبردستی شادیوں سے متاثرہ جن ممالک کا نام لیا ہے بدقسمتی سے پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔زبردستی کی گئی شادیوں کا اگر عمیق نظری سے جائزہ لیا جائے تو یہ صاف عیاں ہے کہ بچے بچیوں کی کی گئی ان شادیوں میں اصل اتھارٹی والدین اپنے پاس رکھنے پر بضد ہیں جبکہ لڑکے لڑکی کی مرضی، رائے اور پسند اور ناپسند کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ لندن کا معروف ریڈیو سٹیشن LBC جسے برطانوی سیاستدانوں، وزراءاور قومی اداروںکے سربراہان کے علاوہ برطانوی سامعین کی سب سے زیادہ تعداد 24 گھنٹے سنتی ہے ایسے ایسے پروگرام پیش کرتا ہے کہ بعض اوقات اپنی ”پاکستانیت“ پر شرم آنے لگتی ہے۔ ایک 13 سالہ برطانوی پاکستانی بچی کو ریڈیو میں جب سے میں نے یہ کہتے سنا ہے کہ اس کے والدین نے تعطیلات کے بہانے پاکستان لے جا کر وہاں اس کی شادی کا زبردستی فیصلہ معاملہ طے کر لیا مجھے ایشیائی اور بالخصوص بعض پاکستانی والدین کے اس اقدام پر شرمندگی کا سامنا ہے۔ میں حیران ہوں، شرمندہ ہوں اور اس سوچ میں گم ہوں کہ ہمارے وہ علماءکرام کہاں گم ہو چکے ہیں۔یہ ہمارے لئے کیا کم مقام شرم ہے کہ جو کام بحیثیت مسلمان ہم نے کرنا تھے وہ آج غیر مسلم کر رہے ہیں؟؟ ”سورہ النسائ“ ہم اکثر و بیشتر پڑھتے ہیں مگر آج تک اپنی نئی نسل کو یہ آگاہ ہی نہیں کیا کہ ”شادی“ کا حقیقی کانسپٹ کیا ہے؟”لڑکے اور لڑکی“ کی شادی سے قبل آرا اور ان کی مرضی معلوم کرنا الحمد اللہ ”قرآنک ورشن“ ہے مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے بعض والدین نے اپنی ذاتی انا کی تحفظ کی خاطر ”لڑکے اور لڑکی کی پسند اور آرا“ کو کسی اور نقطے پر لے گئے ہیں۔ کاش! حضور اکرم کی سیرت مبارکہ سے ہم فیض یاب ہوئے ہوں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے خاندانی جاہ و حشمت بعض اوقات ایسے ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ بچے بچیوں کے بنیادی حقوق کی بھی ہمیں پرواہ نہیں رہتی۔ایشیائی خاندانوں کے مسائل کے حل کے لئے قائم کئے گئے بعض اداروں کی رپورٹ کے مطابق گھروں سے فرار ہونے والی لڑکیوں کی زیادہ تر تعداد کا بنیادی مسئلہ ”زبردستی کی گئی شادی“ ہے جو انہیں گھروں سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔نئے برطانوی قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی زبردستی کی شادی کے واقعات میں یقیناً کمی واقع ہو گی تاہم ایسے والدین جن کی ”انا“ کا معیار انہیں اپنے بچوں کی خوشی سے بھی زیادہ عزیز ہے یہ ضرور سوچ لیں کہ ”لڑکیوں“ کی شادی کرنے سے قبل انہیں ایک ایسے قانون کا سامنا کرنا ہو گا جس میں خالصتاً اسلامی تعلیمات کا درس شامل ہے جب شادی کے وقت لڑکی کی مرضی معلوم کرنے کا حکم موجود ہے تو پھر والدین کو مصلحت کوشی اختیار کا حق کس نے دیا ہے؟؟