ڈاکٹر راشدہ قریشی
ملکی امن و امان کی صورتحال تو بدتر ہے عوامی مسائل کے حل سے متعلق اداروں نے بھی عوام کو ہلکان کر رکھا ہے۔ برکت مارکیٹ کے پاسپورٹ آفس کیا کہنے کہ اتنے بڑے اور اہم آفس میں نظم آشنائی دور تک نہ مل رہی تھے۔ 15 جون صبح 9.30 بجے تک بھی کوئی اعلیٰ آفیسر ڈیوٹی پہ موجود نہ تھا.... گیٹ پر عوامی ہجوم دیدنی تھا۔ پہلے باری پانے کے لئے لوگوں نے صبح پانچ بجے ہی آفس کے باہر قطار بنانا شروع کر دی تھی۔ عمر رسیدہ خواتین و حضرات جو عمرے و حج پہ جانے کی تیاری میں تھے کے علاوہ کثیر تعداد میں چھوٹے بچوں والی خواتین بھی یہاں قطار میں موجود تھیں۔ جیسے ہی سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا تو پبلک ویلفیئر کے حوالے سے ناقص انتظامات کے سبب پاسپورٹ بنانے کے لئے آیاعوامی ریلا بھی شدید گرمی و حبس سے مدہوش ہونے لگا۔ دھوپ کی شدت سے مارے، گرمی و حبس سے پریشان پیاسے عوام کے خشک حلق کو تر کرنے کیلئے دو بوند پانی تک میسر نہ تھا۔ بوڑھے بزرگ خواتین و حضرات جو کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھتے تھے ان کے لئے بیٹھنے کا کوئی بندوبست نہ تھا اور نہ ہی تپش و لُو سے بچاﺅ کے لئے عوام کے سروں پہ شیڈز لگانا ضروری سمجھا گیا تھا۔ گیٹ کی لمبی قطار سے اللہ اللہ کرکے جب کاﺅنٹر پہ پہنچے تو یہ جان کر پریشانی ہوئی کہ جس لمبی قطار کو سر کرکے ہم پاسپورٹ آفس کے اندرونی احاطے میں پہنچے ہیں وہاں ایجنٹوں کے ہاتھ گرم کرکے آنے والوں کی پہلے ہی سے ایک اور قطار موجود ہے۔ یہاں کام جلدی کروانے کے لئے بارہ سو سے دو ہزار روپے تک دیا جاتا ہے جو کہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے اور یہ کھلم کھلا ہو رہا ہے۔ چند ایجنٹس سے گفتگو کے بعد پتہ چلا کہ یہ ایجنٹس آفس عملے کیلئے کام کرتے ہیں جس میں ان کا کمیشن ہوتا ہے....؟ ہماری درسگاہیں
طالب علموں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا ہی نہیں کرتیں بلکہ نسل نو کی ذہن سازی اور کردار کی تشکیل بھی کرتی ہیں۔ درسگاہوں کے احترام اور اساتذہ کی معاشرتی قدر کو مکرم رکھنا ریاست کا فرض ہے۔ گزشتہ دنوں محکمہ تعلیم کے چند اہلکاروں نے گرمیوں کی چھٹیوں میں طلباءکی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے کے جرم کی پاداش میں چند درسگاہوں جن میں اقراءاور قربان گرلز ہائی سکول والٹن جیسے معتبر ادارے بھی شامل ہیں کو سربمہر کر دیا۔ جس پہ طلباءکے والدین ردعمل کے طور پہ کہا ہے کہ محکمہ تعلیم حکومت پنجاب کے اس عمل سے ان کے بچوں کی ذہن سازی و تعلیمی حصول کا عمل پرخار ہو گیا ہے۔ ان والدین کے مطابق پڑھائی میں کمزور بچوں کو گرمیوں کی چھٹیوں میں اساتذہ کی طرف سے خصوصی وقت دے کر کمی پورا کرنا باعث ستائش ہے اور پھر وہ والدین جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ان کے بچوں کے لئے درسگاہوں کے دروازے ہمیشہ کھلے رہنے چاہئیں تاکہ ایسے بچوں کو بہتر تعلیمی ماحول ملتا رہے۔
اب میں قارئین کی طرف سے وصول ہونے والے ایک خط کا ذکر کروں گی جو موضع دھونکل تحصیل وزیر آباد سے نسیم اللہ ولد احسان اللہ، محمد ارشد ولد محمد حسین، سرفراز ولد عبدالغفار، امانت علی ولد محمد صادق، محمد بابر ولد محمد عنایت، محمد جاوید ولد نضر ملک، نعیم اللہ ولد محمد شریف کے علاوہ دیگر نے بھیجا ہے۔ کہتے ہیں کہ 30-4-2012 کو بجلی شارٹ سرکٹ کے سبب ان کی 75ایکڑ گندم کی فصل کو اچانک آگ لگ گئی اور ان کسانوں کی محنت سے لگی لہلہاتی فصل جل کے راکھ ہو گئی جس سے چالیس لاکھ سے زائد کا نقصان ہوا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ان کسانوں کے پاس اس سال گزارے کا نہ تو کوئی وسیلہ ہے اور نہ ہی آئندہ کاشتکاری کے لئے ان کے پاس سرمایہ رہا ہے۔ اس فصل کی کاشتکاری سے وابستہ کئی خاندانوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ یہ غریب کاشتکار بنکوں کے مقروض ہونے کے علاوہ آڑھتیوں سے بھی نظریں چرائے پھر رہے ہیں۔ موضع دھونکل تحصیل وزیر آباد کے لاتعداد کاشتکاروں کے دستخطوں والے خط میں وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف سے استدعا کی گئی ہے کہ ان کسان بھائیوں کی ڈوبتی نیّا کو سنبھالا دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا جائے۔ ان لٹے پٹے کسانوں کی مدد اس طرح کی جائے کہ وہ آئندہ کاشتکاری کے قابل بھی ہو سکیں۔
مخیر حضرات بھی ان خاندنوں کی امداد کے لئے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بے شک یہ قرض حسنہ ہو گا جو اللہ کی درگاہ میں مقبول و پسندیدہ ہو گا۔ وزیر اعلیٰ صاحب سے میری استدعا ہے کہ پاسپورٹ بنانے والے ادارے خالصتاً عوامی ادارے ہیں۔ ان کے نظام و انصرام کا جائزہ ضرور لیں۔ پاسپورٹ بنوانے والوں سے مختلف مدارج میں تین ہزار سے دس ہزار کی فیسیں وصول کرنے کے بعد اس آفس میں بچوں بوڑھوں خواتین و حضرات کے لئے گیٹ پہ دو کولر ٹھنڈے پانی و گرمی سے بچاﺅ کیلئے شیڈز دینا کیا دشوار ہے۔ اپنے لوگوں سے حسن سلوک بھی صدقہ ہے۔ یہ عوام پروٹوکول نہیں، صرف جینے کا حق مانگتے ہے صاحب جی!
ملکی امن و امان کی صورتحال تو بدتر ہے عوامی مسائل کے حل سے متعلق اداروں نے بھی عوام کو ہلکان کر رکھا ہے۔ برکت مارکیٹ کے پاسپورٹ آفس کیا کہنے کہ اتنے بڑے اور اہم آفس میں نظم آشنائی دور تک نہ مل رہی تھے۔ 15 جون صبح 9.30 بجے تک بھی کوئی اعلیٰ آفیسر ڈیوٹی پہ موجود نہ تھا.... گیٹ پر عوامی ہجوم دیدنی تھا۔ پہلے باری پانے کے لئے لوگوں نے صبح پانچ بجے ہی آفس کے باہر قطار بنانا شروع کر دی تھی۔ عمر رسیدہ خواتین و حضرات جو عمرے و حج پہ جانے کی تیاری میں تھے کے علاوہ کثیر تعداد میں چھوٹے بچوں والی خواتین بھی یہاں قطار میں موجود تھیں۔ جیسے ہی سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا تو پبلک ویلفیئر کے حوالے سے ناقص انتظامات کے سبب پاسپورٹ بنانے کے لئے آیاعوامی ریلا بھی شدید گرمی و حبس سے مدہوش ہونے لگا۔ دھوپ کی شدت سے مارے، گرمی و حبس سے پریشان پیاسے عوام کے خشک حلق کو تر کرنے کیلئے دو بوند پانی تک میسر نہ تھا۔ بوڑھے بزرگ خواتین و حضرات جو کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھتے تھے ان کے لئے بیٹھنے کا کوئی بندوبست نہ تھا اور نہ ہی تپش و لُو سے بچاﺅ کے لئے عوام کے سروں پہ شیڈز لگانا ضروری سمجھا گیا تھا۔ گیٹ کی لمبی قطار سے اللہ اللہ کرکے جب کاﺅنٹر پہ پہنچے تو یہ جان کر پریشانی ہوئی کہ جس لمبی قطار کو سر کرکے ہم پاسپورٹ آفس کے اندرونی احاطے میں پہنچے ہیں وہاں ایجنٹوں کے ہاتھ گرم کرکے آنے والوں کی پہلے ہی سے ایک اور قطار موجود ہے۔ یہاں کام جلدی کروانے کے لئے بارہ سو سے دو ہزار روپے تک دیا جاتا ہے جو کہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے اور یہ کھلم کھلا ہو رہا ہے۔ چند ایجنٹس سے گفتگو کے بعد پتہ چلا کہ یہ ایجنٹس آفس عملے کیلئے کام کرتے ہیں جس میں ان کا کمیشن ہوتا ہے....؟ ہماری درسگاہیں
طالب علموں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا ہی نہیں کرتیں بلکہ نسل نو کی ذہن سازی اور کردار کی تشکیل بھی کرتی ہیں۔ درسگاہوں کے احترام اور اساتذہ کی معاشرتی قدر کو مکرم رکھنا ریاست کا فرض ہے۔ گزشتہ دنوں محکمہ تعلیم کے چند اہلکاروں نے گرمیوں کی چھٹیوں میں طلباءکی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے کے جرم کی پاداش میں چند درسگاہوں جن میں اقراءاور قربان گرلز ہائی سکول والٹن جیسے معتبر ادارے بھی شامل ہیں کو سربمہر کر دیا۔ جس پہ طلباءکے والدین ردعمل کے طور پہ کہا ہے کہ محکمہ تعلیم حکومت پنجاب کے اس عمل سے ان کے بچوں کی ذہن سازی و تعلیمی حصول کا عمل پرخار ہو گیا ہے۔ ان والدین کے مطابق پڑھائی میں کمزور بچوں کو گرمیوں کی چھٹیوں میں اساتذہ کی طرف سے خصوصی وقت دے کر کمی پورا کرنا باعث ستائش ہے اور پھر وہ والدین جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ان کے بچوں کے لئے درسگاہوں کے دروازے ہمیشہ کھلے رہنے چاہئیں تاکہ ایسے بچوں کو بہتر تعلیمی ماحول ملتا رہے۔
اب میں قارئین کی طرف سے وصول ہونے والے ایک خط کا ذکر کروں گی جو موضع دھونکل تحصیل وزیر آباد سے نسیم اللہ ولد احسان اللہ، محمد ارشد ولد محمد حسین، سرفراز ولد عبدالغفار، امانت علی ولد محمد صادق، محمد بابر ولد محمد عنایت، محمد جاوید ولد نضر ملک، نعیم اللہ ولد محمد شریف کے علاوہ دیگر نے بھیجا ہے۔ کہتے ہیں کہ 30-4-2012 کو بجلی شارٹ سرکٹ کے سبب ان کی 75ایکڑ گندم کی فصل کو اچانک آگ لگ گئی اور ان کسانوں کی محنت سے لگی لہلہاتی فصل جل کے راکھ ہو گئی جس سے چالیس لاکھ سے زائد کا نقصان ہوا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ان کسانوں کے پاس اس سال گزارے کا نہ تو کوئی وسیلہ ہے اور نہ ہی آئندہ کاشتکاری کے لئے ان کے پاس سرمایہ رہا ہے۔ اس فصل کی کاشتکاری سے وابستہ کئی خاندانوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ یہ غریب کاشتکار بنکوں کے مقروض ہونے کے علاوہ آڑھتیوں سے بھی نظریں چرائے پھر رہے ہیں۔ موضع دھونکل تحصیل وزیر آباد کے لاتعداد کاشتکاروں کے دستخطوں والے خط میں وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف سے استدعا کی گئی ہے کہ ان کسان بھائیوں کی ڈوبتی نیّا کو سنبھالا دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا جائے۔ ان لٹے پٹے کسانوں کی مدد اس طرح کی جائے کہ وہ آئندہ کاشتکاری کے قابل بھی ہو سکیں۔
مخیر حضرات بھی ان خاندنوں کی امداد کے لئے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بے شک یہ قرض حسنہ ہو گا جو اللہ کی درگاہ میں مقبول و پسندیدہ ہو گا۔ وزیر اعلیٰ صاحب سے میری استدعا ہے کہ پاسپورٹ بنانے والے ادارے خالصتاً عوامی ادارے ہیں۔ ان کے نظام و انصرام کا جائزہ ضرور لیں۔ پاسپورٹ بنوانے والوں سے مختلف مدارج میں تین ہزار سے دس ہزار کی فیسیں وصول کرنے کے بعد اس آفس میں بچوں بوڑھوں خواتین و حضرات کے لئے گیٹ پہ دو کولر ٹھنڈے پانی و گرمی سے بچاﺅ کیلئے شیڈز دینا کیا دشوار ہے۔ اپنے لوگوں سے حسن سلوک بھی صدقہ ہے۔ یہ عوام پروٹوکول نہیں، صرف جینے کا حق مانگتے ہے صاحب جی!